نواز طاہر :
پنجاب پولیس پی ٹی آئی کے رہنما اور نجی اسپتال کے مالک ڈاکٹر شاہد صدیق پر فائرنگ کرنے والے اجرتی قاتل شوٹر شہریار کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ دوسری جانب مقتول ڈاکٹرکے زیر ِحراست بیٹے قیوم نے اپنے باپ کو قتل کرانے جیسے جرم پر پشیمانی کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ جب کہ زیر حراست افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی کشور عمران کی قیادت میں خصوصی ٹیموں نے چیچا وطنی اور وہاڑی کے علاقوں میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے ہیں لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ۔ ان ذرائع کے مطابق اس وقت ( یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک) پولیس کی ایک ٹیم ملزم کی گرفتاری کے لیے گئی ہوئی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ملزم کی ایک سے زائد مقامات پر لوکیش ٹریس ہوئی۔ لیکن بعد میں وہ وہاں سے مل نہیں سکا ۔
اس کے برعکس بتایا گیا ہے کہ ملزم شوٹر راوی کے مختلف علاقوں میں پناہ گاہیں رکھتا ہے اور جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے میں بھی اس کے رابطے ہیں اور اکثر وہ انہیں علاقوں میں غائب رہتا ہے یا پھر عیاشی اور واردات کے لئے لاہور میں رہتا ہے اور بڑی وارداتیں ہی اس کا ٹارگٹ ہوتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں اجرتی قاتلوں ( شوٹرز ) نے جتنی بھی وارداتیں کیں، ان میں اگر کوئی شوٹر مواقع پر مارا گیا تو الگ بات ورنہ وہ پولیس کے ہتھے نہیں چڑھتے۔ موجودہ کیس میں گاڑی ٹریس ہونے اور ملزموں کا حدود اربع معلوم ہونے کی وجہ سے ایسا امکان ہے کہ ملزم کو گرفتار کیا جاسکے۔ بصورتِ دیگر لاہور میں اجرت پر انسانی جانیںلینے والوں کی وارداتوں کی تاریخ گرفتاریوں سے بالا ہے ۔ اور ان شوٹرز کو مقدمات کے مدعیوں و ملزموں میں یا پولیس کے ساتھ معاملات طے پانے پر ریلیف مل جاتا ہے اور وہ گرفتاریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔
لاہور میں پریس کلب کے سامنے صحافی حسنین شاہ پر فائرنگ کرنے والے شوٹر حمزہ کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بھی آج تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ جبکہ صحافی حسنین شاہ کے قتل کا مقدمہ مدعی اور ملزم فریق کے مابین صلح کی بنیاد پر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، اس طرح کی کئی دیگر مثالیں بھی ہیں ۔
اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ شوٹر کی گرفتاری عمل میں نہ آنے سے مدعی کی طرف سے ایف آئی آر میں نامزد کیے جانے والے ملزموں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور مقدمات ختم ہوجاتے ہیں جس کے بعد شوٹرز کی گرفتاری زیر التوا رہ جاتی ہے ۔ ا ڑھائی سال قبل پنجاب کے موجودہ وزیر خوراک بلال یاسین پر فائرنگ کرنے والا صرف ایک شوٹر گرفتار ہوسکا تھا جس نے گرفتاری کے بعد اس حملے کے کرداروں کے بارے میں بتایا تھا۔
ایک ریٹائرڈ تفتیشی افسر کے مطابق بعض اوقات شوٹرز مقدمہ ختم ہونے کے بعد بھی کچھ زائد وصولی کرتے ہیں اور زیاہ تر کیسز میں شوٹرز کو ان کی اجرت پر خدمات لینے والے خود بھی پولیس سے تحفظ دلاتے ہیں اور اس ضمن میں پولیس بھی معاونت کرتی ہے جبکہ پولیس کی ایسی کالی بھڑیں مخفی بھی نہیں ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مجرموں کو سہولت فراہم کرنے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے پر گزشتہ روز ہی آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ڈی ایس پی عہدہ کے تین افسروں کو معطل کیا ہے۔
اس ضمن میں جاری کیے جانے والے سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایس ڈی پی او بارگاہ ننکانہ صاحب سلیم حیدر شاہ کو مختلف کیسز میں ملزمان کو فائدہ اور جھوٹی ایف آئی آر دج کرنے، ایس ڈی پی او صدر جھنگ محمد اسلم کوبے گناہ افراد کو ایف آئی آر میں ناجائز طور پر نامزد کرنے، غلط ڈیٹینشن آرڈر جاری کروانے اور ایس ڈی پی دہلی گیٹ ملتان محمد شہباز گل کو قبضہ مافیا کے ساتھ سازباز کی پاداش میں معطل کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی اسپیشل برانچ کی طرف سے حکومت کو صرف لاہور میں وارداتیں کرنے اور واردات کیلئے اجرت پر قتل کرنے والے دو سو گیارہ شوٹر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ لیکن حکومت کی طرف سے ان کی سرکوبی اور گرفتاری کیلئے کوئی جامع حکمتِ عملی طے نہ کی گئی۔ البتہ دس سے گیارہ شوٹرز گرفتاری کے عمل کے دوران مقابلوں میں ہلاک ہوگئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے شوٹروں کے برعکس ڈاکٹر شاہد صدیق پر فائرنگ کرنے والے شوٹر کی گرفتاری کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم شوٹرز ہسٹری اور قتل کی موجودہ واردات میں ایسے امکانات موجود ہیں کہ اس شوٹر کی بھی گرفتاری عمل میں نہ آئے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جب مقدمے کا کمزور چالان پیش کیا جائے تو اس سے پہلے معاملات طے پا جائیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت تک مقتول کے زیر حراست بیٹے کے ساتھ خاندان کی طرف سے کوئی ہمدردانہ رابطہ نہیں کیا گیا اور کھانا بھی پولیس ہی کی طرف سے فراہم کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شوٹر شہریار کی گرفتاری کیلئے جانے والی ٹیم کو کامیابی نہیں ملی۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما نجی اسپتال کے مالک ڈاکٹر شاہد صدیق کو نا معلوم افراد نے دو اگست کی دوپہر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں مقتول کا نشئی و عیاش بیٹا قیوم ہی باپ کا قاتل نکلا تھا جس نے اجرتی قاتلوں سے باپ کو قتل کروایا تھا۔