جعلی عاملوں کی پھیلائی خرافات سے بچنا ضروری ہے، فائل فوٹو
جعلی عاملوں کی پھیلائی خرافات سے بچنا ضروری ہے، فائل فوٹو

ماہ صفر شروع ہوتے ہی جعلی عامل سرگرم

اقبال اعوان :
اسلامی مہینے صفر کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں جعلی عاملوں کا دھندش بڑھ گیا۔ قبرستانوں اور چلہ گاہوں میں ڈیرے ڈالنے شروع کردیے۔

جعلی عاملوں نے مذکورہ مہینے سے چند روز قبل ہی سوشل میڈیا پر طرح طرح کی خوفناک باتیں پھیلانا شروع کر دی تھیں کہ یہ مہینہ جادو ٹونے کا کہلاتا ہے۔ اس لیے کمزور عقیدے والے اور سادہ لوح شہری ڈھونگی عاملوں کے پاس چکر لگانے لگتے ہیں۔ کالے علم کرنے والے لاکھوں روپے بٹورنے لگے۔ دوسری جانب علمائے کرام کا کہنا ہے کہ صفر المظفر سمیت کوئی مہینہ برے اثرات کا حامل نہیں۔ یہ سب خرافات ڈھونگی عاملوں نے پھیلائی ہیں۔ عوام اس سے بچیں۔

واضح رہے کہ کراچی میں عدلیہ اور وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے پابندی کی وجہ سے عامل اب کھلے عام دکانیں نہیں چلا سکتے۔ کچی آبادیوں اور مضافاتی علاقوں میں آستانے، استخارہ گاہ کے نام پر نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ شہر کی دیواروں پر چاکنگ کرکے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعہ یا آن لان کام کر رہے ہیں کراچی کے عامل جن میں عورتیں بھی شامل ہیں سال بھر اتنا نہیں کما پاتی کہ جتنا صفر کے مہینے میں کماتی ہیں۔ اس مہینے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جادو ٹونے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر عامل چند خواہشات پر لوگوں کو لوٹتے ہیں کہ کم عقیدے والی خواتین، مرد ان مسائل کو حل کرانا چاہتے ہیں۔

خواتین زیادہ تر شوہر، ساس، نندوں کو قابو کرنے، سوتن کو نقصان دینے، اولاد کے لئے اچانک ڈھیروں پیسہ مل جائے، طلاق کا مسئلہ ہو جائے، طالب علم امتحانوں میں مطلوبہ رزلٹ سے اچھے نمبرز سے پاس ہونے، نوجوانوں میں روزگار اچھا ملے، اچانک لاٹری نکل آئے اور امیر ہو جائے، پسند کی شادی ہو جائے تاہم خطرناک خواہشوں میں سگے رشتے دار آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کالا علم یا کالا جادو کراتے ہیں کہ فلاں کے بچے مرجائیں، میری اولاد ہو جائے، ایک دوسرے کے مرنے، قریبی رشتے داروں کو جائیداد، عورت تنازع پر مروانے کے لئے تل جاتے ہیں۔ضعیف العتقاد لوگ سال بھر انتظار کرتے ہیں کہ صفر کے مہینے سے قبل بکنگ کرلی جائے۔

اس حوالے سے چند قبرستانوں میں گورکنوں سے سیٹنگ ہوتی ہے یا آج کل قبرستان کے اندر عاملوں چھوٹے چھوٹے فرضی مزار بنا کر جگہیں گھیر لی ہیں۔ اس طرح چار دیواری کے اندر چلہ کاٹ سکتے ہیں کہ اندر قبر میں موجود ہیں۔ قبرستانوں میں راتوں کو عامل مرد اور عورتیں جاتی ہیں ایک عامل عورت کا کہنا ہے کہ جب کوئی بیمار ان تک لایا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ اس کا پتلا بنا کر یا اس پر سوئیاں لگا کر کہیں قبرستان میں دفنایا گیا ہے اب وہ رات کو قبرستان جا کر قبر کے اندر بیٹھ کر علم کرے گی۔ تو وہاں مردے کا موکل دوسرے قبرستان سے گڈا ڈھونڈ کر لائے گا جس کو گھر لاکر ٹھنڈے دودھ میں نہلا کر سوئیاں نکالوں گی۔ قبر میں موکل کے لئے 4 کلو بوٹی والا بکرے کا گوشت درکار ہوگا اس طرح 8 ہزار روپے گوشت کے، عمل کرنے کے 20/25 ہزار روپے کام کرنے کے، اور دودھ کے ہزار روپے الگ لیتی ہے۔

صفر کے مہینے کے حوالے سے یہ بات اڑائی جاتی ہے کہ صفر میں آسمان سے ایک لاکھ 20 ہزار بلائیں زمین پر اترتی ہیں، مردوں کے لئے بھاری ہوتا ہے خواتین چنے ابال کر گھروں میں تقسیم کرتی ہیں کہ آفات سے بچا جاسکے۔ کالے علم، کالے جادو، جنات، جادو ٹونے کے شکار افراد زیادہ کام کراتے ہیں۔ ہندو، عیسائی جہاں مشہور ہیں وہاں بنگالی طبقہ عاملوں کا آگے ہے۔

بلدیہ ٹائون سے تعلق رکھنے والے مفتی خلیل اللہ نے بتایا کہ صفر کے مہینے کے حوالے سے طرح طرح کا جھوٹ گھڑا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس مہینے کے آغاز میں گھروں کو خالی کرکے چلے جاتے تھے کہ بلائیں انہیں ستاتی رہیں گی۔ آجکل جدید دور میں بھی پڑھا لکھا طبقہ اب بھی اس ماہ کے حوالے سے ایسی بات کرتا ہے کہ حیران رہ جاتے ہیں۔