عمران خان :
ملک میں سائبرکرائمز کی روک تھام کیلیے نئی تحقیقاتی ایجنسی اپنے قیام کے تقریباً 4 ماہ بعد بھی فعال نہ ہوسکی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے باقاعدہ قیام کا نوٹیفیکیشن رواں برس 2 مئی کو کیا گیا تھا۔ جس کے فوری بعد ایجنسی کیلئے اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل آفس قائم کرنا تھا۔ تاکہ سائبر کرائمز کی تحقیقات کے اختیارات ایف آئی اے سے لے کر اسے تفویض کیے جاسکیں۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ تمام منظوریوں اور نوٹیفیکیشن کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے اور سائبر کرائم ونگ تاحال ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے ماتحت ہی کام کر رہا ہے۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ ساڑھے تین ماہ قبل جب وزارت داخلہ کے ماتحت اس ایجنسی کو نوٹیفائی کیا گیا تھا تو اس کے بعد یہی منصوبہ بندی تھی کہ ایک سے دو ہفتوں میں نئے ادارے کیلئے مطلوبہ معیار اور اہلیت کے مطابق نیا ڈائریکٹر جنرل اشتہار دے کر بھرتی کرلیا جائے گا اور اسلام آباد نیشنل پولیس بیورو کے ہیڈ کوارٹرز میں کیلئے دفاتر بھی فراہم کردیئے جائیں گے۔ جو اس نئی تحقیقاتی ادارے کا ڈائریکٹوریٹ جنرل ہوگا۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ جس کی بعض وجوہات سامنے آئی ہیں ۔
رواں برس 3 مئی کے نوٹیفیکیشن کے مطابق نئی تحقیقاتی ایجنسی کا نام ’نیشنل سائبر کرائم ایویسٹی گیشن ایجنسی‘ (این سی سی آئی اے) رکھا گیا۔ جس کا قیام ’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ، 2016‘ کے آرٹیکل 29 کے تحت عمل میں لایا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق این سی سی آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل حکومت پاکستان کا منتخب کردہ گریڈ 21 کا افسر ہوگا اور اس کی سربراہی میں محکمے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دیگر افسران کام کریں گے۔
ذرائع کے بقول جب سائبر کرائمز کی تحقیقات کیلئے نئی علیحدہ ایجنسی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تو اس کے بعد عالمی سطح پر بھی اس پر بات ہوئی۔ اسی دوران وفاقی وزیر داخلہ جب برطانیہ کے دورے پر مئی کے آخر میں لندن میں تھے۔ اس وقت انہوں نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل جیمز بیبیج اور ڈائریکٹر جنرل نیشنل سیکورٹی آف فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس جوناتھن ایلن سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل کرائم ایجنسی پاکستانی افسران کو سائبر کرائمز اور انسداد منشیات کے حوالے سے تربیت دے گی۔
ذرائع کے بقول پاکستان اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے حوالے سے لیٹر آف انٹینٹ (ایل او آئی) پر بھی دستخط کیے۔ جس میں انسانی اسمگلنگ، امیگریشن کے جرائم کے ساتھ منشیات اور اسلحہ کے پھیلائو کے انسداد میں بھی مشترکہ تعاون بڑھانے کے معاہدے شامل کیے گئے۔ یوں ایک نئی ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں پاکستانی تحقیقاتی ادارے کو فارنسک چھان بین اور تحقیقات کیلئے جدید ساز وسامان فراہم کرنے اور افسران کو تربیت دینے کے فیصلے کیے گئے۔ چونکہ اس وقت پاکستان میں ایک نئی سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی منظوری دے دی گئی تھی۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ ان تمام جرائم کی تحقیقات میں ہونے والی فارنسک تفتیش اسی ایجنسی کے ذریعے کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ عرصہ کیلئے اسے فعال کرنے کا فیصلہ موخر کردیا گیا۔
ذرائع کے بقول بعد ازاں ان معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان مزید پیش رفت ہوئی اور اس نئی تحقیقاتی ایجنسی کا دائرہ کار وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس میں اس کے نام کی تبدیلی کے ساتھ اسے موثر بنانے کیلئے اس کے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کے لئے نیا مسودہ تیار کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ 10جولائی 2024ء کو ایک مجوزہ مسودہ تیار کرکے وفاقی وزارت داخلہ سمیت متعلقہ حکام کو ارسال کردیا گیا۔ جس میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو نئے نام یعنی نیشنل فارنسک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی (این ایف ایس اے) کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مسودہ کے مطابق نیشنل فارنسک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی تفتیش میں استعمال ہونے والے روایتی طریقوں جس میں پیتھالوجی، انتھروپولوجی، ڈی این اے تجزیہ، منشیات، فنگر پرنٹس، سیرولوجی، بیلسٹکس، دھماکہ خیز مواد، اوڈونٹولوجی، اینٹومولوجی، دستاویزات کی جانچ اور کرائم سین کی تفتیش وغیرہ شامل کیے گئے۔ ساتھ ہی شق شامل کی گئی کہ یہ ایجنسی آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور اسمارٹ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کرے گی۔
تجاویز کے مطابق این ایف ایس اے کے دائرہ اختیار میں ہر قسم کے سائبر کرائم، سائبر وارفیئر اور ’’ڈیپ فیک‘‘ ٹیکنالوجی سے متعلقہ جرائم یا من گھڑت ڈیجیٹل میڈیا کی کوئی دوسری شکل جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ڈیپ لرننگ الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے کسی حقیقی یا خیالی شخص کی نقالی یا بدنامی کی جائے کی تحقیقات کرنا بھی شامل ہوگا۔ اس نئے ادارے پر کام سابق عبوری حکومت کے دور میں دسمبر 2023ء میں شروع کیا گیا۔ جس کا پہلا مقصد ملک میں سوشل میڈیا کا بے تحاشا بڑھتا ہوا منفی استعمال اور ریاست مخالف پروپیگنڈے کو روکنا تھا۔
2007ء سے ایک سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کے ماتحت کام کررہا ہے۔ جس کو ایک پروجیکٹ کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ تاہم اب ملک بھر میں 20 سے زائد تھانے اور زونل دفاتر قائم ہیں۔ جو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ 2 برس سے سائبر کرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر یہ دیکھا گیا کہ ایف آئی اے کے ماتحت سائبر کرائم سرکلوں کی جانب سے کئی ایسی انکوائریاں کی گئیں۔ جن میں زیر تفتیش افراد کو جب نوٹس ارسال کیے گئے تو انہوں نے مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ چونکہ ان انکوائریوں کیلئے ایف آئی اے کے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کے ساتھ پاکستان الیکٹرانک کرائم انویسٹی گیشن رولز کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ اس لئے عدالتوں کی جانب سے ایسے کئی کیسز میں ایف آئی اے حکام بشمول ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور زونل ڈائریکٹرز کو نوٹس بھیجے۔ جبکہ کئی ایسی انکوائریوں کو روکنا پڑا۔
ذرائع کے بقول ان میں سے کئی کیسز اور اسکینڈلز میں عدالتی اور قانونی پیچیدگیوں کے سامنے آنے کے بعد ایسی رپورٹیں وزارت داخلہ اور انفارمیشن منسٹری کو موصول ہوئیں۔ جن میں موجودہ صورتحال میں سائبر کرائمز کی تفتیش کیلئے ایک علیحدہ ایجنسی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ جس کے اپنے قوانین اور اپنے اننویسٹی گیشن اینڈ انکوائریز رولز ہوں۔ اس کے ساتھ ہی چھاپہ مار کارروائی سے لے کر گرفتاریوں تک کی اپنی ایس او پیز ہوں۔
ذرائع کے مطابق اس حوالے سے دونوں وزارتوں کی مشاورت کے بعد ایک ماہ قبل اس کی سفارشات کابینہ کو بھیجی گئیں۔ جس کی بنیاد پر اس کی منظوری دے دی گئی۔ تاہم اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ہی اس نئی ایجنسی کے دائرہ کار کے حوالے سے مکمل ڈھانچے پر عمل درآمد ممکن ہوگا۔ اس ایجنسی کو وزارت داخلہ کے ہی ماتحت رکھا جائے گا۔ تاہم اس کے فارنسک معاملات اور قوانین میں ترمیم کے حوالے سے وزارت انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا عمل دخل برقرار رہے گا۔