نمائندہ امت :
گزشتہ 22 ماہ کے دوران گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو تیسری بار ہٹانے کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ تاہم اس بار بھی ان کی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومتی اور سماجی امور میں زیادہ سرگرم رہنے کے باعث پیپلز پارٹی کی قیادت ان سے خوش نہیں ہے۔ جہاں تک نواز لیگ سندھ کے صدر ریٹائرڈ بیوروکریٹ بشیر میمن کے نئے گورنر سندھ بننے کی بات ہے تو اس کی تردید نواز لیگی قیادت خود کرچکی ہے۔ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے بھی بشیر میمن ناپسندیدہ شخصیت رہی ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کی قیادت انہیں گورنر بنانے پر کبھی بھی آمادہ نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومتی اتحاد کی تیسری بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بھی یہ نہیں چاہے گی کہ ان سے گورنر شپ کا عہدہ چھن جائے۔ متحدہ کے بعض رہنما کامران ٹیسوری کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر گورنر کی تبدیلی ممکن ہوبھی گئی تو متحدہ کی قیادت چاہے گی کہ ان کی حمایت یافتہ شخصیت ہی گورنر سندھ کے منصب پر آئے۔
کامران ٹیسوری پی ڈی ایم اے کی حکومت کا قیام وجود میں آنے کے بعد اکتوبر 2022ء میں گورنر سندھ بنے تھے۔ جس کے بعد انہیں دو بار پہلے بھی ہٹانے کی کوششیں کی گئی تھیں جو ناکام رہیں۔ ایک بار پھر گورنر سندھ کی تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ عام انتخابات کے بعد مارچ 2024ء میں نئی حکومت کی قیام کے بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ فارمولا طے ہوا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ جبکہ سندھ اور بلوچستان میں نواز لیگ کی مرضی سے گورنر تعینات ہوں گے۔
مذکورہ فارمولے کے تحت پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان کے گورنر تبدیل ہوچکے۔ لیکن سندھ میں کامران ٹیسوری گزشتہ 22 ماہ سے گورنر کے منصب پر برقرار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت مذکورہ فارمولے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ہی دراصل کامران ٹیسوری کی تبدیلی چاہتی ہے۔ جس کی اصل وجہ گورنر سندھ کے مختلف حکومتی اور سماجی امور میں زیادہ متحرک رہنا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی کرائم کا بڑا واقعہ ہوتا ہے یا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو گورنر سندھ فوری طور پر اس کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرتے ہیں۔
بعض اوقات وہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بھی پہلے نوٹس لے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کامران ٹیسوری مختلف محکموں کے اعلیٰ افسران کو طلب کرکے ان سے بریفنگ لینے کے ساتھ انہیں احکامات اور تجاویز بھی دیتے ہیں۔ گورنر سندھ کی اس نوعیت کی سرگرمیوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت ناخوش ہے۔ ساتھ ہی کامران ٹیسوری کی جانب سے شروع کردہ گورنر فری آئی ٹی کورس کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ مذکورہ پروگرام کے تحت تقریباً پچاس ہزار نوجوانوں کو انٹرن شپ کے تحت آئی ٹی کا کورس کرایا جارہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس حوالے سے بھی ان کی مقبولیت سے ناخوش ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ اس حوالے سے چند روز قبل میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو تبدیل ہونا تھا، لیکن ابھی تک نہ جانے کیوں گورنر تبدیل نہیں ہوئے۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان گورنر شپ کے متعلق جو فارمولا طے پایا تھا وہ اپنی جگہ، لیکن ایسے میں حکومتی اتحاد کی تیسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کئی رہنما کامران ٹیسوری کو قبول کرچکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ گورنر بنے تھے تو انہیں صرف ڈاکٹر فاروق ستار کی حمایت حاصل تھی۔ گورنر سندھ کی تبدیلی کی خبریں شروع ہوئیں تو اس پر ایم کیو ایم کی قیادت کا بھی ردعمل سامنے آیا۔ متحدہ کی قیادت کا اصل ردعمل کامران ٹیسوری کو ہٹانے پر نہیں، بلکہ ان کی جگہ نواز لیگ سندھ کے صدر بشیر میمن کا نام نئے گورنر کے طور پر آنے پر تھا۔ متحدہ کی قیادت چاہتی ہے کہ اگر گورنر کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر کامران ٹیسوری کی جگہ ان کے ہی کسی حمایت یافتہ شخص کو گورنر بنایا جائے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی گورنر کی تبدیلی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔
جہاں تک بشیر میمن کے گورنر سندھ بننے کے چرچے کے بات ہے تو اس کی تردید نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کرچکے ہیں۔ تاہم اسحاق ڈار کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ گورنر کی تبدیلی کے متعلق پیپلز پارٹی کی قیادت سے مشاورت چل رہی ہے۔ مگر اس سلسلے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ نواز لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے بعض رہنمائوں نے نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت کو یہ بات باور کرائی ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی اسپیس حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح نواز لیگ کو بھی سندھ میں ایسا ہی اسپیس ملنا چاہئے۔ جس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سندھ میں گورنر شپ کا عہدہ نواز لیگ اپنے پاس رکھے۔
ذرائع نے بتایا کہ نواز لیگ کی مذکورہ حکمت عملی میں بھی بشیر میمن کا نام شامل نہیں ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے نواز لیگ کے بعض سینئر اور پرانے رہنما بشیر میمن سے نالاں ہیں۔ انہوں نے پارٹی قیادت کے سامنے یہ موقف بھی پیش کیا تھا کہ عام انتخابات سے قبل بڑے بڑے دعوے کئے جارہے تھے۔ لیکن بشیر میمن سندھ میں اچھا رزلٹ نہیں دے سکے، یہاں تک کہ وہ خود بھی ہار گئے تھے۔
مذکورہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد نواز لیگ کی قیادت نے متحدہ کی قیادت کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ میں گورنر ان کے حمایت یافتہ ہوں گے۔ اس لئے متحدہ قومی موومنٹ اپنا وہ حق جتا رہی ہے۔ تاہم مذکورہ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جہاں تک متحدہ قومی موومنٹ کی بات ہے تو انہیں گورنر شپ کے بدلے میں وفاقی حکومت میں حصہ بڑھاکر دیا جاسکتا ہے۔ جس کا انحصار خود متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت پر ہے کہ وہ اس بات پر آمادہ ہوتی ہے یا نہیں؟ دو روز قبل متحدہ کے رہنما مصطفیٰ کمال کا یہ بیان بھی منظر عام پر آیا کہ وہ پیپلز پارٹی کو پارٹنر شپ کی دعوت دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کا مذکورہ بیان بھی سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ سے ممکنہ طور پر گورنر شپ کا عہدہ چھن جانے کے پس منظر میں ہے۔