اقبال اعوان:
کراچی میں فینسی پرندوں کا کاروبار ٹھنڈا پڑگیا۔ ایک جانب بڑھتی مہنگائی اور معاشی مسائل سے دوچار شہریوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔
پرندوں ، پنجروں اور خوراک و دوائووں کی قیمتیں بڑھنے پر شہریوں کا شوق ماند ہوچکا۔ جبکہ چھوٹے پیمانے پر روزگار کرنے والے اور بجلی گیس کے بھاری بلوں سے پریشان شہری فینسی پرندے اونے پونے قیمتوں پر فروخت کرنے لگے۔ شہر میں فینسی پرندوں کی چوری اور چھینا جھپٹی بھی بڑھ گئی ہے۔
صدر ایمپریس مارکیٹ، کورنگی اور شریف آباد سمیت شہر میں دکانوں پر سناٹا چھایا رہتا ہے۔ اتوار اور جمعہ کو لگنے والے پرندہ بازاروں میں مجبوری سے فروخت کرنے والے اور مسروقہ پرندے فروخت کرنے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔ پرندوں کا آن لائن کام شروع کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ شہر میں دو سال قبل تک بزنس منافع بخش رہا تھا۔ اب بجٹ میں پرندوں کی خوراک، دوائیوں پر ٹیکس لگنے اور مہنگائی بڑھنے سے یہ کاروبار امیر لوگوں تک محدود ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ بیوی بچوں کیلئے روٹی کا بندوبست کرے یا پرندوں کیلیے خوراک لے کر آئے۔
واضح رہے کہ کراچی میں چند سال قبل فینسی طوطوں اور پرندوں کا کاروبار عروج پر پہنچ تھا۔ اس دوران فینسی پرندے 300 روپے سے ہزاروں روپے تک مل رہے تھے۔ بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے والے لاکھوں روپے مالیت کے گرے طوطے، مکائو سمیت قیمتی پرندوں کا بزنس کرتے تھے۔ لیکن اب یہ کاروبار ماند پڑ گیا ہے۔ مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ معاشی مسائل نے الگ شہریوں کو گھیر رکھا ہے۔ لہٰذا ان رنگ برنگے اور خوبصورت، مختلف اقسام کی آوازیں نکالنے والے پرندے گھروں میں نہیں رکھے جا رہے۔ پہلے چھوٹے طبقے کے لوگ 50 ہزار روپے سے اس کا بزنس شروع کر رہے تھے۔
ان پرندوں طوطوں کی ہزاروں اقسام ہیں۔ بجری، زیبرا، فنچ، یورو فنچ، ڈائمنڈ فنچ، وائٹ بنگلائز، کرسٹیڈ فنچ، لیڈی گولڈن، اورنج فنچ، بلیو گولڈن فنچ، اسٹار فنچ، لوٹینو فنچ، لور برڈز، کوک ٹیل، آسٹریلین طوطے اور مختلف اقسام کے رنگ برنگے طوے چڑیاں دکانوں پر نظر آتی تھیں۔ چند سال قبل تک گرے طوطا بآسانی مل جاتا تھا۔ جس کی قیمت ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے تک تھی۔ اس کو جو باتیں سکھائی جاتیں۔ وہ فوراً سیکھ لیتا۔ شہری رقم خرچ کرکے پارٹ ٹائم بزنس کرتے تھے۔ چھتوں پر پنجرے فٹ کرالئے گئے تھے۔ تاہم اب ان پرندوں کی خوراک اور دوائیں انتہائی مہنگی ہو گئی ہیں۔ جبکہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی شرح بڑھ گئی ہے اور دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ فینسی طوطے، پرندے چھینے اور چوری کیے جارہے ہیں۔
کورنگی کھڈی اسٹاپ، کورنگی ڈھائی نمبر، کریم آباد، شاہ فیصل کالونی نمبر 5، ایمپریس مارکیٹ صدر، نشان حیدر چوک اورنگی، بنارس چوک اور دیگر علاقوں میں لیاقت آباد نمبر 2 کے اندر جمعہ اور اتوار بازار لگتا ہے اور پرندے فروخت ہوتے ہیں۔ تاہم یہاں پر زیادہ تر مسروقہ پرندے اور طوطے فروخت ہوتے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ میں لگنے والے اتوار بازار میں فینسی پرندے لے کر آنے والے شوکت علی نے بتایا کہ وہ فیکٹری میں کام کرتا تھا اور گھر میں چھت پر دو ڈھائی لاکھ روپے کے پرندے پالے ہوئے تھے۔ اس کا بجلی کا بل 3 ہزار سے بڑھتے بڑھتے اس بار 19 ہزار کا آیا ہے۔ گیس کا بل ڈھائی سو روپے سے 21 سو روپے کا آیا ہے۔ اب فیکٹری بند ہونے پر وہ بے روزگار ہو گیا ہے۔ اب ہر اتوار یا جمعہ کو بازار میں پرندے آکر فروخت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مجبوری میں کاروبار ختم کر دیا ہے۔ لوگوں کیلئے ان کی خوراک، دوائیاں پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
خوراک اور دوائیں 50 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں۔ جبکہ لوہا مہنگا ہونے پر پنجرے بھی مہنگے ہوچکے ہیں۔ پانی و خوراک کے برتن سمیت دیگر استعمال ہونے والی اشیا مہنگی ہوچکی ہیں۔ پرندے خریدنے والے سستا خرید کر آگے مہنگا فروخت کردیتے ہیں۔ پرندے والے اکبر خان کا کہنا ہے کہ شہری پرندے کم خرید رہے ہیں۔ جبکہ فروخت کرنے والے زیادہ ہیں۔