نواز طاہر :
دولت کی لالچ میں ایک اور بیٹے نے زمیندار باپ کی جان لے لی اور اسے خودکشی کا ڈرامہ قرار دیتے ہوئے ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد پولیس ملزمان کی ریکارڈ میں گرفتاری ظاہر کر سکی ہے نہ ہی اس سے جڑی پیچیدگیاں حل کرسکی ہے۔ قتل کی یہ واردات جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیری غازی خان کے تھانہ تونسہ کے قصبے منگھروٹہ میں ہوئی۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ قصبہ منگھروٹہ کے حکیم اور زمیندار سید انیس پنجتن شاہ رضوی آٹھ اگست کی شب پُراسرار طور پر اپنے گھر میں ہلاک ہو گئے۔ جن کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے خودکشی کی ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ ڈرامہ ناکام ہو گیا اور پولیس نے واردات کے تین روز بعد مقتول کے اپنے ہی بیٹے سید ترسیل شاہ کو حراست میں لے کر اس کے دوست میثم ملغانی، کزن میر مسلم اور مقتول کے ڈرائیور شادو کو حراست میں لے لیا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق مقتول انیس پنجتن ایک متمول زمیندار اور خاندانی مالدار حکیم تھے۔ سماجی و سیاسی پوزیشن مستحکم ہونے پر امن کمیٹی کے رکن بنائے گئے تھے۔
بیٹا ترسیل شاہ مقتول باپ کے ساتھ حکمت میں بھی معاونت کرتا تھا۔ تحقیقات کے دوران اس کیس سے جڑے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ جن کے مطابق ملزم ترسیل شاہ مقتول پنجتن شاہ کی دوسری بیوی سے اولاد ہے۔ اس بیوی سے پنچتن شاہ کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ پنجتن شاہ کی پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ترسیل شاہ کی والدہ کے دباؤ پر پنجتن شاہ نے پہلی بیوی کو طلاق دیدی تھی اور بیٹیوں کو عاق کر دیا تھا۔ پولیس اور مقامی لوگوں سے حاصل معلومات کے مطابق مقتول انیس شاہ قتل ہونے سے پہلے ایک خاتون سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہا تھا۔
اسی دوران وہ اپنے گھر پہنچا اور اس نے خاتون سے کہا کہ وہ گھر میں داخل ہو کر بات کرتا ہے۔ اس نے فون رکھا اور گھر میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی شور و غل اور چیخ و پکار کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ ان آوازوں کو سن کر ٹیلی فون سننے والی خاتون نے فوری طور پر سید انیس کے ڈرائیور شادو کو فون کیا اور اسے گھر پہنچنے کی ہدایت کی۔ ساتھ ہی پولیس ہیلپ لائن پر بھی کال کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق پولیس تو بروقت نہ پہنچ سکی۔ لیکن کچھ دیر بعد شادو پہنچ گیا۔ تاہم بار بار دستک کے باوجود اندر سے دروازہ نہیں کھولا گیا۔ بلکہ شادو کو واپس جانے کیلئے کہا گیا۔ یہیں سے قتل چھپانے کی کوشش کی ناکامی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریبا دو گھنٹے بعد شادو نے مسلسل دروازہ کھٹکھٹایا تو مقتول کے بیٹے ترسیل شاہ نے اسے واپس بھیجنے کی کوشش کی۔ تاہم اس نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ اسے پنجتن شاہ نے خود ٹیلی فون کرکے ضروری کام کے سلسلے میں بلایا ہے اور وہ ملے بغیر واپس نہیں جائے گا۔
اسی تکرار کے دوران اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور چاروناچار دروازہ کھولنا پڑا۔ جب اندر گئے تو پنجتن شاہ نیم مردہ حالت میں تھا۔ فوری طور پر اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں اس کی موت کی تصدیق کر دی گئی۔ اس مقدمے کا ایک اہم رخ یہ سامنے آیا ہے کہ انیس شاہ کے مقدمہ قتل کی ایف آئی آر کا مدعی ملزم ترسیل شاہ کے ساتھ گرفتار ہونے والے کزن کا والد یعنی ماموں ہے۔ تھانہ تونسہ شریف میں درج اس ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ اسے ٹیلی فون پر اطلاع دی گئی تھی کہ انیس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ جب اسے اسپتال لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ اس کے جسم پر کئی ضربات ہیں۔ جن سے واضح تھا کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے۔
موت کی تصدیق کے بعد ان ضربات کی روشنی میں مقتول کے پوسٹ مارٹم کرانے کا بھی تنازعہ کھڑا ہوا۔ جسے اختلاف رائے قرار دیا گیا اور پوسٹ مارٹم نہ کروانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم پوسٹ مارٹم کرانا ناگزیر ہو گیا۔ جس کی رپورٹ میں انیس شاہ پر تشدد کی تصدیق ہو گئی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ تشدد کرنے والا ایک آدمی نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق تشدد کرنے والے چار لوگ تھے۔ پولیس رائے کے مطابق جن چار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے ہی تشدد کیا۔ جبکہ زیر حراست ڈرائیور شادو سے بھی مختلف زاویوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اب تک کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ جائیداد کے تنازعہ پر خاندان میں اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔ انیس شاہ کو اس کے بیٹے نے ٹیلی فون کرکے گھر بلایا تھا۔ اس سے پہلے وہ منصوبہ بندی کرکے ساتھیوں کو بلا چکا تھا۔ پولیس کی طرف سے اب تک اس خاتون کا نام سامنے نہیں لایا گیا۔ جس کے ساتھ وقوعہ کے وقت گھر میں داخل ہونے سے پہلے انیس شاہ فون پر گفتگو کر رہا تھا۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام گرفتاریاں اسی خاتون کی ابتدائی انفارمیشن اور ٹیلی فون کال کی تصدیق کے بعد عمل میں لائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقتول انیس شاہ اپنی پہلی مطلقہ بیوی اور بیٹیوں سے رابطے میں تھا اور اس نے ان کا عاق نامہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق مقتول ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اپنی اربوں روپے کی جائیداد میں سے اپنی بیٹیوں کو بھی حصہ دینے کا خواہشمند تھا۔ لیکن دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے ترسیل شاہ اور اس کے دیگر رشتہ داروں کو اس بات کا رنج تھا۔