ایف آئی اے نے درآمد کندگان کمپنیوں اور کلیئرنگ ایجنٹوں سمیت کسٹمز کی کالی بھیڑوں کیخلاف تحقیقات شروع کردیں، فائل فوٹو
ایف آئی اے نے درآمد کندگان کمپنیوں اور کلیئرنگ ایجنٹوں سمیت کسٹمز کی کالی بھیڑوں کیخلاف تحقیقات شروع کردیں، فائل فوٹو

کراچی کی ٹیکس چور مافیا نے لاہور کا رخ کرلیا

عمران خان :
کراچی کی ٹیکس چور مافیا نے لاہور کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس منتقلی کی وجہ ڈرائی پورٹس (خشک گودیوں) پر تعینات بعض کسٹمز افسران کی جانب سے مذکورہ مافیا کو دی جانے والی سہولت کاری ہے۔ گزشتہ دنوں متواتر ایسی تین وارداتیں پکڑی جاچکی ہیں، جن میں کباڑ کی آڑ میں قیمتی سامان کلیئر کروایا گیا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض درآمد کنندگان کمپنیوں کے مالکان، کلیئرنگ ایجنٹوں اور بانڈڈ گڈز کیریئر کے ساتھ مل کر اپنا اربوں روپے کا سامان کراچی کے ٹرمنل سے کلیئر کرانے کے بجائے پنجاب کی خشک گودیوں سے کلیئر کرانے لگے ہیں۔ اسکینڈل سامنے آنے پر ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

ذرائع سے موصول ہونے اطلاعات کے مطابق ایسی ہی ایک بڑی واردات میں کمپنی مالکان ، ایجنٹوں اور سرکاری سہولت کاروں کا گٹھ جوڑ سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے نے اربوں روپے کے سامان پر ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے حوالے سے بر آمد کنندہ کمپنی زینک گرین، بانڈڈ کیریئر التاجر اینڈ کو، یاسین شپنگ لائن ، کلیئرنگ ایجنٹ ایف کے انٹر پرائزز، کلیئر فریٹ انٹرنیشنل، کراچی انٹرنیشنل کنٹینرز ٹرمینل ( کے آئی سی ٹی) کے مالکان اور اسٹاف کے ساتھ سہولت کاری دینے والے کسٹمز افسران کے خلاف تحقیقات شروع کردیں۔ تحقیقات میں متعدد کمپنیوں کے مالکان کو متعلقہ ریکارڈ بشمول آئی جی ایم ، بی ایل ( بل آف لیڈنگ) گڈز ڈکلریشن ، ٹی پی کی دستاویزات سمیت جبل علی سے سامان بھجوانے والی کمپنی کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ۔

ایف آئی اے کی جانب سے مذکورہ کیس پر ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس لاہور کی ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں کام شروع کیا گیا، جس میں یاسین شپنگ لائن اور زینک گرین (Zaniq Green) کمپنیوں کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے کے لیپ ٹاپ، موبائل فونز، الیکٹرک ویپ، الیکٹرانک آئٹمز اور دیگر قیمتی اشیا، ٹائر اسکریپ یعنی کباڑ کی آڑ میں بیرون ملک سے منگوائی گئیں۔ اس سامان کو کراچی کی بندرگاہ سے کلیئر کروانے کے بجائے لاہور کی خشک گودی پر تعینات کسٹمز افسران کے ذریعے کلیئر کروانے کے لئے ٹرانسشپمنٹ پرمٹس ( ٹی پی) پر لاہورمنتقل کیا گیا۔

تحقیقات کے مطابق ایسے ہی ایک کھیپ کے کنٹینرکو کسٹمز انٹیلی جنس نے جب خفیہ اطلاع ملنے پر بلاک کروایا تو کسٹمز لاہور اپریزمنٹ کے متعلقہ افسران میں کھلبلی مچ گئی۔ اگر کسٹمز انٹیلی جنس لاہور نشاندہی نہ کرتی تو ممکن تھا کہ یہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کا سامان کسٹمز لاہور کے افسران کلیئر کردیتے ۔ تاہم اس حوالے سے معاملہ کسٹمز انٹیلی جنس لاہور کے ذریعے چیف کلکٹر لاہور کسٹمز کے علم میں آنے کے بعد مقدمہ درج کردیا گیا۔
تحقیقاتی ٹیم نے کنٹینر کھولا تو اس میں سے کروڑوں روپے مالیت کا قیمتی سامان بر آمد ہوا ۔ جس کے بعد دونوں کمپنیوں کے خلاف تفتیش شروع کی گئیں ۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس وقت لاہور کی خشک گودی پر تعینات کسٹمز اپریزمنٹ لاہور کلکٹریٹ کے بعض افسران ٹیکس چوروں کے سہولت کار بن گئے ہیں اور انہوں نے اس کلکٹریٹ کو بڑے ٹیکس چوروں کے لئے مرکز بنادیا ہے۔ جس میں ایک انسپکٹر عمر محبوب کا کردار انتہائی مشکوک پایا گیا جو مبینہ طور پر کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ کے لئے فرنٹ میں مشکوک کھیپوں پر بھاری رقوم وصولی کرتے رہے اور انہوں نے ہی مذکورہ کمپنیوں کو کراچی کے بجائے لاہور کلکٹریٹ سے اپنا سامان کلیئر کروانے کے لئے مدعو کیا۔

بعد ازاں کسٹمز کلکٹریٹ لاہور کی جانب سے اسی کیس پر یاسین شپنگ لائن اور زینک گرین کمپنیوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ جس میں بانڈڈ کیریئر التاجر اینڈ کو بھی نامزد ہے۔ اس مقدمہ میں لاہور اپریزمنٹ ویسٹ کے انسپکٹر عمر محبوب اور محمد ندیم مدعی بنائے گئے جبکہ عدنان حیدر کو تفتیش دی گئی جن کا کردار انتہائی مشکوک رہا۔ اب جس وقت یہ اسکینڈل سامنے آیا، اس وقت کلکٹر اپریزمنٹ ویسٹ لاہور زہرہ حیدر ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس اسکینڈل میں کسٹمز لاہور کے متعلقہ افسران اور تفتیشی افسر عدنان حیدر تفتیش کے سلسلے میں کراچی بھی آئے۔ تاہم انہوں نے یاسین شپنگ لائن اور کلیئر فریٹ انٹر نیشنل نامی کمپنیوں کے خلاف موثر تفتیش نہیں کی ۔ حالانکہ انہی کمپنیوں کے ذریعے زینک گرین کے مالکان قیمتی سامان منگواتے رہے۔ بعد ازاں اس کیس میں کسٹمز ایڈ جیوڈی کیشن لاہور کلکٹریٹ کی جانب سے زینک گرین اور اس کے کلیئرنگ ایجنٹ ایف کے انٹر پرائزز پر صرف 4ل اکھ کا جرمانہ کیا۔ کسٹمز لاہور کی تحقیقات میں زینک گرین کمپنی کے کلیئرنگ ایجنٹ ایف کے انٹر پرائزز اور کراچی انٹر نیشنل کنٹینرز ٹرمینل ( کے آئی سی ٹی ) کے اسٹاف سے بھی مکمل تفتیش نہیں کی گئی۔ حالانکہ ایسی اطلاعات تھیں کہ کے آئی سی ٹی کے اسٹاف سے ایک کنٹینر کی سیل کھلوائی گئی تھی ۔

ایف آئی اے کو اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق زینک گرین پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی کی در آمد کنندہ کمپنی ہے جس کی جانب سے ابتدائی طور پر جنوری 2024ء یہ سامان جبل علی کی بندرگاہ سے کراچی کے لئے منگویا گیا۔ تاہم یہ شبہ ہونے پر کہ کراچی کی بندرگاہ پر سامان کی سخت چیکنگ کی جائے گی، اس سامان کو لاہور کی خشک گودی کے لئے روانہ کروادیا گیا۔ اس کے لئے شپنگ لائن کی جانب سے رول اور پنلک نوٹس نمبر 10 کے تحت ایک درخواست دی گئی، جس پر مبینہ طور پر ممبر کسٹمز فرید اقبال قریشی کی جانب سے ہدایات دی گئیں جس پر عمل در آمد کرتے ہوئے اسسٹنٹ کلکٹر صبا کی جانب سے آئی جی ایم تبدیل کردیا گیا۔

اس کیس کی تحقیقات اگر درست سمت پر ہوئی تو اس میں بڑے ٹیکس چور اور ان کے کسٹمز میں موجود بڑے سہولت کار آسانی سے بے نقاب کئے جاسکتے ہیں ۔ اس کے لئے ایف آئی اے کی جانب سے جبل علی سے سامان پاکستان کے لئے بھجوانے والی کمپنی سے بھی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔