ملزمہ کی میڈیکل رپورٹ تاخیر کا شکار ہونے سے مقدمہ کی تفتیش مکمل نہیں ہو سکی، فائل فوٹو
ملزمہ کی میڈیکل رپورٹ تاخیر کا شکار ہونے سے مقدمہ کی تفتیش مکمل نہیں ہو سکی، فائل فوٹو

نتاشا کا جیل سے جلد نکلنا ممکن نہیں

سید حسن شاہ :
کار ساز میں تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے باپ بیٹی کے جاں بحق ہونے سے متعلق کیس میں گرفتار معروف کمپنی کے چیئرمین کی اہلیہ نتاشا کے جلد جیل سے باہر آنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ میں ناقابل ضمانت قتل بالسبب کی دفعہ 322 کا اضافہ کردیا ہے۔ جو آئندہ چند دنوں میں عدالت میں جمع کرائے جانے والے چالان میں باقاعدہ طور پر شامل کرلی جائے گی۔ ملزمہ نتاشا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں قید ہے۔ ملزمہ کی میڈیکل رپورٹ تاخیر کا شکار ہونے سے مقدمہ کی تفتیش مکمل نہیں ہوسکی۔ ملزمہ کو نفسیاتی مریضہ ظاہر کرنے کا دعویٰ بھی اسے جیل جانے سے نہیں بچا سکا۔

یاد رہے کہ 19 اگست 2024ء کو کارساز میں خاتون ڈرائیور نتاشا کی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے ایک شخص عمران عارف اور اس کی بیٹی آمنہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ جبکہ واقعے میں عبدالسلام شدید زخمی ہوا تھا۔ جو اس وقت اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ واقعے کے فوری بعد ہی وہاں موجود شہریوں نے خاتون ڈرائیور کو فرار ہونے نہیں دیا۔ جبکہ پولیس اور رینجرز بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔ پولیس نے موقع سے ملزمہ نتاشا کو حراست میں لیکر تھانے منتقل کیا اور واقعے میں جاں بحق عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف کی مدعیت میں تھانہ بہادرآباد میں مقدمہ درج کیا۔

ابتدا میں پولیس کی جانب سے کافی کمزور مقدمہ بنایا گیا۔ جبکہ مقدمہ میں قتل خطا کی دفعہ 320، غفلت و لاپرواہی اور تیز رفتاری سے ٹکر مارنے کی دفعات شامل کی گئیں، جو قابل ضمانت دفعات تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس نے ملزمہ کو تھانے میں رکھ کر تفتیش کرنے کے بجائے اسے جناح اسپتال منتقل کردیا۔ جہاں اسے شعبہ نفسیات میں ایڈمٹ کرلیا گیا۔ جبکہ پولیس کی جانب سے ملزمہ سے کسی قسم کی کوئی تفتیش عمل میں نہیں لائی گئی۔ ملزمہ کو اگلے روز ریمانڈ کیلئے متعلقہ عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور ملزمہ کو پولیس و وکیل صفائی کی جانب سے نفسیاتی مریضہ قرار دے دیا گیا۔

اگلے روز جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں سماعت کے دوران مقدمہ کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر ریحان احمد کی جانب سے ملزمہ نتاشا کی عدم پیشی سے متعلق رپورٹ اور جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے انچارج ڈاکٹر چنی لعل کا ملزمہ سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرادیا گیا۔

مذکورہ دستاویزات کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے جناح اسپتال کے سائیکولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے انچارج کو درخواست لکھی گئی، کہ ’تھانہ بہادر آباد میں درج مقدمہ میں گرفتار ملزمہ نتاشا زوجہ دانش اقبال آپ کے پاس زیر علاج ہے۔ لہذا ملزمہ سے تفتیش کی اجازت دی جائے اور ملزمہ کو متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے‘۔ مذکورہ درخواست پر انچارج ڈپارٹمنٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیہیورل سائنسز ڈاکٹر چنی لعل نے پولیس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’نتاشا دانش سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ میں تفصیلی معائنے کیلئے داخل ہیں۔ فی الوقت ملزمہ کنفیوز ہے۔ اس کی ذہنی حالت ایسی نہیں کہ عدالت میں پیش ہو یا تفتیش میں شامل ہوسکے‘۔ مذکورہ سماعت میں عدالت نے ملزمہ کو اگلے روز پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

یہ واقعہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہوا تو پولیس اور دیگر اداروں پر دباؤ بڑھا۔ جس کے بعد اگلے ہی روز پولیس نے ملزمہ نتاشا کو متعلقہ عدالت میں پیش کردیا۔ جبکہ جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے انچارج ڈاکٹر چنی لعل نے بھی ملزمہ کو اسپتال سے ڈسچارج کرتے ہوئے اسے ٹھیک قرار دیا۔ متعلقہ عدالت میں بھی پیشی کے موقع پر پولیس نے ملزمہ کو پروٹوکول فراہم کیا۔ ملزمہ کو ہتھکڑی بھی نہیں پہنائی گئی تھی۔ جبکہ اسے خواتین و مرد اہلکاروں نے حصار میں لیکر عدالت میں پیش کیا تھا۔

اس سماعت کے بعد عدالت نے ملزمہ نتاشا کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ ملزمہ اس وقت بھی جیل میں ہے۔ جبکہ پولیس کو مقدمہ کی تفتیش مکمل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقدمہ کی تحقیقات جاری ہیں اور ملزمہ کے خلاف شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ ابتدائی طور پر مقدمہ میں قتل بالسبب کی دفعہ 322 کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ دفعہ 322 ناقابل ضمانت ہے اور اس دفعہ کے تحت سزا 10 سال سے عمر قید اور دیت ادائیگی کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس وقت دیت کی رقم فی کس 68 لاکھ 50 ہزار روپے ہے۔ جو کسی بھی ملزم کو مقتول کے ورثا کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق اب تک ملزمہ کی میڈیکل رپورٹ بھی تفتیشی حکام کو موصول نہیں ہوئی۔ جبکہ ملزمہ کا ڈرائیونگ لائسنس جو یو کے کا بتایاجاتا ہے، اس کی بھی تصدیق کی جارہی ہے۔ تحقیقات مکمل کرکے ملزمہ کے خلاف مقدمہ کا چالان متعلقہ عدالت میں جمع کرایا جائے گا اور تحقیقات میں مزید پیش رفت بھی سامنے آنے کا امکان ہے۔ فی الحال مقدمہ میں جو اضافی دفعہ شامل کی گئی ہے۔ اس سے ملزمہ کے جلد جیل سے باہر آنے کے امکانات کم ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔