عمران خان:
سٹہ صرف کرکٹ میں ہی نہیں کھیلا جاتا۔ پاکستان میں جواریوں نے ڈالر، چینی اور سونے سمیت کئی اجناس میں بھی اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ پاکستان کی قدیم ترین کھارادر صرافہ مارکیٹ میں خام سونے یعنی ’’بلین‘‘ پر سٹے کا آغاز 60 کی دہائی میں شوقیہ شروع کیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ منظم جوئے میں تبدیل ہوا اور جسے اب صرافوں کی چوتھی نسل ڈیجیٹل فارم یعنی واٹس ایپ پر منتقل کرکے آن لائن گیمبلنگ میں تبدیل کرچکی ہے۔ اس وقت 13 واٹس ایپ گروپوں میں 3 ہزار سے زائد افراد سٹہ بازی میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس صورتحال میں سونے کے کاروبار کو دستاویزی (آن ریکارڈ) بنانے کیلئے حساس اداروں نے بلین (صرافہ) مارکیٹ کی کڑی مانیٹرنگ شروع کردی ہے۔ ایک ماہ قبل تحقیقات کیلئے صرافہ مارکیٹ کے کمپیوٹرز اور رجسٹرڈ بھی تحویل میں لئے گئے۔ لیکن اس کے باوجود سٹہ باز سرگرم ہیں۔
ملک میں سونے کی خرید و فروخت کی آڑ میں بڑھتی ہوئی منی لانڈرنگ، حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کو روکنے کیلئے ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کی ناکامی کے بعد حساس ادارے سرگرم ہوگئے ہیں۔ چونکہ سونے کی خرید و فروخت زیادہ تر کیش پر ہوتی ہے۔ اس لئے اس کا کوئی بینکنگ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کھربوں روپے کے اس غیر دستاویزی کاروبار پر اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے ساتھ کالے دھن کو کھپا دیا جاتا ہے۔
ملک کے سب سے قدیم کھارادر صرافہ بازار میں لگنے والا روایتی ( بلین، Bullion) کا سٹہ تاریخ میں پہلی بار کئی ہفتوں سے بند ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ حساس ادارے اور وفاقی تحقیقاتی اداروں کی ٹیموں کی جانب سے ایک ماہ قبل یہاں پر بڑی اور ہنگامی کارروائی کی گئی۔ جس میں یہاں قائم دکانوں اور کراچی صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے دفاتر سے معلومات حاصل کی گئیں۔ کارروائی میں یہاں سے وہ کمپیوٹرز بھی لے لئے گئے۔ جن سے دبئی بلین مارکیٹ سے رابطے کیے جاتے تھے۔ جبکہ خرید و فروخت کے ریکارڈ پر مشتمل رجسٹرڈ بھی لئے گئے۔
مذکورہ کارروائی میں ایسوی ایشن کے عہدیداروں سے سونے کے نرخ طے کرنے اور اس کا اعلان کرنے کا طریقہ کار پوچھا گیا۔ جبکہ اس میں ہونے والی سٹہ بازی کی معلومات حاصل کی گئیں۔ اب تک اداروں نے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کے ذریعے کئی واٹس ایپ گروپوں میں سرگرم درجنوں بڑے سٹہ بازوں کے کوائف حاصل کرلئے ہیں۔ جن کے خلاف جلد کارروائی متوقع ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے فہرست مکمل کیے جانے کے بعد ایف آئی اے کے حولے کردی جائے گی۔ جس پر وفاقی وزیر خزانہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ملک گیر کارروائیوں کی ہدایات جاری کریں گے۔
صرافہ مارکیٹ ذرائع کے بقول سونے پر یہ سٹہ بلین (Bullion) کہلا تا ہے۔ بلین انگریزی زبان میں سونے اور چاندی کی اس خام حالت کو کہتے ہیں۔ جسے بعد ازاں تراش کر زیورات یا دیگر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ یہ بڑے ٹکڑوں، بلاکس اور بسکٹس کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ سونے پر یہ سٹہ دنیا بھر کے ممالک میں شوقین اور تجربے کار تاجر کھیلتے ہیں۔ تاہم اس میں ملکی قوانین، متعلقہ اداروں کے قواعد وضوابط کا خیال رکھے جانے کے علاوہ منی لانڈرنگ یا حوالہ ہنڈی جیسے جرائم کی آمیزش سے بچنے کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے۔ جبکہ اس میں بلین کھیلنے والوں کو ہونے والا منافع یا نقصان بھی دستاویزی یعنی آن ریکارڈ ہوتا ہے۔ جس کا ریکارڈ حکومتوں کے مالیاتی لین دین اور کاروبار کے مانیٹرنگ کے اداروں کے پاس موجو د ہوتا ہے ۔
مارکیٹ ذرائع کے بقول ماضی میں کراچی کی مرکزی صرافہ مارکیٹ کھارادر میں شوقین تاجر Bullion کھیلتے تھے۔ جس کیلئے باقاعدہ قواعد و ضوابط طے شدہ تھے۔ صرافہ بازار کے مرکز میں موجود ایک چھوٹے سے چوک پر جمع ہونے والے تاجروں کو سونے کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے ہونے والے اتار چڑھائو سے آگاہ رکھنے کیلئے کمپیوٹرز سے منسلک اسکرینیں نصب ہوا کرتی تھیں۔ جن میں دبئی سے موصول ہونے والی تازہ ترین اپ ڈیٹس کی روشنی میں بلین کھیلنے والے تاجر سونے کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ اس کھیل میں صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے عہدیدار خود بھی شریک ہوا کرتے تھے۔
قواعد و ضوابط کے تحت یہ ’’سٹہ‘‘ ہفتے میں ایک دن صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھیلا جاتا تھا اور اس میں مقامی مارکیٹ میں سونے کے اتار چڑھائو پر زیادہ سے زیادہ دو سو سے ڈھائی سو کا فرق ہفتہ وار پڑتا تھا۔ تاہم ذرائع کے بقول اس سٹہ میں 2020ء میں کئی گنا تیزی آئی اور یہ ہر طرح کے قواعد و ضوابط سے بے لگام بھی ہوگیا۔ حتیٰ کہ اس کو ہفتہ کے سات دن چوبیس گھنٹے کھیلا جانے لگا۔ اس کیلئے ابتدا میں بعض لالچی تاجروں نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دیئے اور اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے سونے کی مارکیٹ میں مصنوعی دبائو پیدا کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں اس میں دیگر تاجر بھی شامل ہوگئے۔ اب صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب 13 واٹس ایپ گروپوں میں 3 ہزار سے زائد ایسے افراد شامل ہیں۔ جو سٹہ بازی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں کو نقصان بھی ہوچکا ہے۔ تاہم وہ بڑے مگرمچھوں سے نقصان اٹھانے کے بعد اپنا خسارہ مقامی مارکیٹ میں سونے کا لین دین کرنے والے عام شہریوں سے پورا کر لیتے ہیں۔
مذکورہ سٹہ کے ملک میں سونے کی صنعت اور قیمتوں پر کیا اثرات رونما ہوئے۔ اس کا اندازہ مذکورہ اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ، اس وقت سونے کی فی تولہ قیمت2 لاکھ 70 ہزار روپے کے قریب گردش کر رہی ہے۔ حالانکہ صرف 4 برس قبل ستمبر 2019ء میں فی تولہ سونے کا ریٹ 80 ہزار روپے کے گرد گرش کر رہا تھا۔ جولائی 2020ء سے اچانک اس میں غیر معمولی اتار چڑھائو آنے لگا اور روزانہ کی بنیاد پر فی تولہ، قیمتوں میں ایک سے دو ہزار روپے کے بجائے یکدم 5 سے 10 ہزار روپے کا اتار چڑھائو دیکھا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں شدت آتی گئی۔
اعداد و شمار کے مطابق 2022ء کے دوران زیادہ سے زیادہ قیمت فی تولہ ایک لاکھ 57 ہزار روپے ریکارڈ کی گئی۔ بعد ازاں 2023ء میں یہ ریٹ 2 لاکھ کی حد عبور کرگیا۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک نے کبھی ریگولیٹری اتھارٹی ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی عملی قدم اٹھایا۔ جبکہ صرافہ ایسوسی ایشن خود مختار ادارے کی حیثیت سے سونے کی تجارت کی خرید و فروخت کے ریٹ مقرر کرتی رہی۔ تاہم بدقسمتی سے جب اس سٹہ بازی میں اضافہ ہوا تو صرافہ ایسوسی ایشن اور ان کے تمام عہیدار مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باجود خاموش رہے۔
واٹس گروپوں میں کھیلے جانے والے سٹہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثال کے طور پر رواں ہفتہ میں جمعہ کے روز مارکیٹ ریٹ شام کو فی تولہ 2 لاکھ 60 ہزار روپے پر بند ہوا۔ لیکن ہفتے کی رات اور ہفتے کے دن واٹس ایپ گروپوں میں کئی سٹہ بازوں نے 2 لاکھ 272 ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے سونا بک کروانا شروع کردیا۔ جبکہ ڈیمانڈ بڑھتے ہی سونا بیچنے والے 2 لاکھ 75 ہزار تک کے ریٹ بھی دینے لگے۔ اصولی طور پر مقامی صرافہ مارکیٹ میں شام کو کام بند ہونے کے بعد اس کی ٹریڈ اور بلین اگلی صبح بازار میں کام شروع ہونے تک بند ہونا چاہیے۔ تاہم واٹس ایپ گروپوں میں ملک کے ہزاروں تاجروں کے سامنے ٹریڈنگ چل رہی ہوتی ہے۔ صبح تک ریٹ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ جبکہ سٹہ باز سونا بک کروا کر مال اٹھائے بغیر اس کو آگے فروخت کرکے لاکھوں کا کمیشن راتوں رات کما لیتے ہیں اور عوام کیلئے ریٹ بڑھ جاتا ہے ۔
اگلی صبح مارکیٹیں اسی ریٹ پر کھلنے کے بعد کام شروع کرتی ہیں۔ جب تک درجنوں سٹے باز کروڑوں روپے بٹور چکے ہوتے ہیں۔ یہی مصنوعی بائنگ سیلنگ مارکیٹ میں مناپلی پیدا کر رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ماضی میں مرکزی صرافہ ایسوسی ایشن کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھائو کی مناسبت سے ریٹ کھولے اور بند کیے جاتے تھے۔ لیکن صرف چند برسوں میں سٹہ باز گروپوں نے اس قدر اجارہ داری قائم کرلی کہ سونے کی عالمی مارکیٹ کو ہی نظر انداز کردیا گیا۔ یہ عالمی مارکیٹ میں ہونے والے سونے کے اتار چڑھائو کے بجائے اپنے علیحدہ ریٹ کھولے اور بند کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں جب عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی تھیں۔ پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔