نمائندہ امت:
افغان قونصل جنرل محب اللہ شاکر اور ان کے ساتھی سفارتکار کی جانب سے عید میلادالنبیؐ کی تقریب میں پاکستانی ترانے کیلئے احترام کے طور پر کھڑے نہ ہونے پر پشاور کے شہریوں نے افغان قونصل جنرل کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملا عمر کے دور سے آج تک جتنی بھی تقاریب ہوئیں۔ طالبان کے اہم رہنما پاکستانی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوئے ہیں۔
1996ء کے بعد طالبان نے میوزک پر پابندی لگائی تھی۔ اس کے باوجود 23 مارچ اور دیگر تقاریب میں ملا عمر کے نمائندے اور بعد میں افغان رہنما پاکستانی ترانے کے احترام میں کھڑے رہے ہیں۔ تاہم صوبائی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے پاکستانی آئین اور فیڈریشن کے خلاف باتیں کرنے، وفاقی حکومت کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے اور افغانستان کے حوالے سے براہ راست مذاکرات کے دعوئوں اور اقدامات پر افغان سفارتی عملے نے جان بوجھ کر یہ کام کیا۔ ادھر قومی ترانے کی بے توقیری پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی احمد کنڈی کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں موقف اپنایا گیا ہے کہ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونا سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ جس پر قائمقام افغان قونصل جنرل کیخلاف اسلام آباد اور کابل دونوں سطح پر شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔ ماہرین و تجزیہ کاروں نے بھی کہا ہے کہ محکمہ خارجہ کو اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے۔ قومی ترانے کا احترام نہ کر کے محب اللہ شاکر نے اعلان کیا ہے کہ ان کو پاکستان اور پاکستانی قوم کا کوئی احترام نہیں۔
جبکہ وزیراعلیٰ بھی تنقید کی زد میں ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ وفاق کے بجائے صوبائی سطح پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے جبکہ بعد ازاں افغانستان سے ہی آنے والے حکام نے قومی ترانے کی بے توقیری کی۔ جس پر عوام کو شدید غم و غصہ ہے۔
پشاورکے شہری علاقے سے تعلق رکھنے والی سماجی شخصیات حاجی ارشاد، ماسٹر اعجاز، جلیل لالہ اور دیگر کا کہنا ہے کہ افغان قونصل جنرل کی حرکت نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس پر ان کو معذرت بھی کرنی چاہیے۔ پاکستان اور خاص کر خیبرپختونخوا افغانوں کا دوسرا گھر رہا ہے۔ ایسے میں قومی ترانہ کے احترام میں اگر وہ تھوڑی دیر کیلئے کھڑے ہو جاتے تو ان کیلئے ہماری طرف سے عزت میں اضافہ ہوتا۔ عوام میں بھی اس پر سخت غم و غصہ ہے۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ جنہوں نے قومی ترانے کا احترام نہیں کیا۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہ کی جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے کسی نے بھی قومی ترانے کی اس طرح سے بے توقیری نہیں کی۔ تاجر برادری کی جانب سے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قصہ خوانی و صدر بازار کے تاجروں نے وطن عزیز کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہوئے دکانوں اور تجارتی مراکز میں قومی نغمے اور ترانے لگانا شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ کارخانو مارکیٹ سمیت دیگر تجارتی مراکز جہاں افغان تاجر کاروبار کر رہے ہیں، وہاں پر بھی قومی ترانے لگائے جارہے ہیں۔
اسی طرح طلبہ کی جانب سے بھی اس واقعہ کی مذمت کی گئی ہے۔ پشاور کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کو اسی وقت جرات اور ہمت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے افغان قونصل جنرل کو تقریب سے نکال دینا چاہیے تھا۔ لیکن جس طرح کی تقاریر اور بیانات وہ دیتے ہیں۔ اسی سے افغان قونصل جنرل کو شہہ ملی۔
گورنمنٹ کالج کے ایک طالبعلم محمد عاصم نے کہا کہ ’’ہماری صوبائی حکومت اور خاص کر وزیراعلیٰ کا فرض بنتا ہے کہ وہ قومی ترانے کا احترام نہ کرنے والے کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ جس پر صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ پر بھی جتنی تنقید کی جائے کم ہے، کہ ان کی دعوت پر ہی افغان حکام تقریب میں شریک ہوئے۔ اگر افغان حکام کو سفارتی تعلقات اور قومی ترانے کے احترام کا معلوم نہ تھا تو انہیں تقریب کے آغاز پر ہی بتا دیا جاتا کہ قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا پڑتا ہے‘‘۔