امت رپورٹ :
ملکی سیاسی منظر نامے میں اکتوبر کا مہینہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ حکومتی ذرائع سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ اگلے مہینے کے وسط تک ایک بار پھر آئینی ترامیم منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی اور دعویٰ ہے کہ اس بار ناکامی کا امکان کم ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ دعویٰ پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم کی دوسری کوشش کامیاب بنانے کے لئے بہت سی شقوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کی بہت سی شقیں غیر سرکاری طور پر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی شق سرفہرست ہے۔ اسی طرح سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی بات بھی کی گئی ہے۔ کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے پاس ہوگی۔ جبکہ ایک اور شق کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز کو ملک کے کسی بھی صوبے میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار کمیشن کے پاس ہوگا۔ اسی طرح مجوزہ مسودے میں آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے میں بھی ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف کسی بھی قانون سازی پر ووٹ دینے والے رکن کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے انتخاب کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی شق بھی شامل ہے۔ جس کے تحت اس عہدے کے لئے تین نام بھیجے جائیں گے۔ پھر یہ کہ سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سمیت دیگر متعدد شقیں بھی مجوزہ مسودے کا حصہ ہیں۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اب دیگر شقوں کو سائیڈ میں رکھ کر سارا فوکس وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر کرلیا ہے۔ کیونکہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر تقریباً تمام اتحادی پارٹیاں تو آمادہ ہیں ہی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس پر نیم رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سمجھتی ہے کہ اگر پہلے مرحلے میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت چند دیگر آئینی شقوں پر عملدرآمد ہوجاتا ہے تو بہت سے معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس لئے سارا زور وفاقی آئینی کورٹ کے لئے لگایا جارہا ہے۔ جسے نون لیگ کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس معاملے پر مکمل طور پر آمادہ کرنے کا ٹاسک حکومت نے بلاول بھٹو زرداری کو سونپا ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ بلاول بھٹو اس ٹاسک کو پورا کرلیں گے اور مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کی جن شقوں پر مولانا کو اعتراض ہے، اسے تسلیم کرکے کم از کم وفاقی آئینی کورٹ سمیت چند دیگر ناگزیر شقوں پر انہیں منالیا جائے گا۔ یہ ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد اکتوبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں آئینی ترامیم منظور کرانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت کے نزدیک آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کی اجارہ داری ختم ہوگی اور قانون سازی سمیت دیگر آئینی و سیاسی معاملات میں سپریم کورٹ کی رکاوٹ کو دور کیا جاسکے گا۔ آئینی کورٹ کے قیام کے نتیجے میں چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ آئینی کورٹ کے سربراہ کو مل جائے گا۔ اس آئینی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی میں موجود پارٹیوں پر مشتمل آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ کہ دفعہ ایک سو چوراسی کے تحت از خود نوٹس کا اختیار بھی سپریم کورٹ سے لے کر وفاقی آئینی حکومت کو دیدیا جائے گا۔ ملک کے تمام ادارے سپریم کورٹ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کے پابند ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر طرح کا آئینی و سیاسی معاملہ وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔ سپریم کورٹ صرف فوجداری اور دیوانی مقدمات نمٹائے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک آئینی عدالت کے قیام سے پورا موجودہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئینی عدالت بننے کی صورت میں 9 مئی کے حوالے سے عمران خان کا مقدمہ بھی آرمی عدالت میں چلنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ وفاقی آئینی کورٹ بنتا ہے تو یہ مقدمہ بھی اسے منتقل ہوجائے گا۔
اگلے ماہ آئینی ترامیم کے لئے دوسری کوشش کے سلسلے میں آرٹیکل تریسٹھ اے نظر ثانی کیس بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ کیس تیس ستمبر کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔ بنچ کے دیگر چار جج صاحبان میں جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔ سترہ مئی دو ہزار بائیس کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے۔ تاہم اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کی جانب سے، جس میں جسٹس منیب اختر شامل تھے، سنائے جانے والے اس فیصلے کو آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ آرٹیکل ترسیٹھ اے میں منحرف رکن کی نااہلی کا ذکر تو ہے، لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن کی اب تک سماعت نہیں ہوسکی تھی۔
اب تیس ستمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جو پانچ رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کرنے جارہا ہے۔ اس میں ان سمیت چار جج صاحبان ایسے ہیں، جنہوں نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ اگر تیس ستمبر کو جسٹس منیب اختر بنچ میں بیٹھنے سے انکار کردیتے ہیں تو ان کی جگہ کسی دوسرے جج کو بنچ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کو امید ہے کہ نظر ثانی اپیل میں منحرف رکن کے ووٹ کو شمار کرنے کا معاملہ بحال ہوجائے گا۔ اس صورت میں مجوزہ آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی خاطر پی ٹی آئی کے آٓزاد ارکان کے ووٹ حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بہت سے ارکان اپنی نااہلی کی پروا کیے بغیر حکومتی آئینی ترامیم کے لئے ووٹ دینے پر تیار ہیں۔ تاہم جب تک ووٹ شمار نہ کرنے سے متعلق تریسٹھ اے میں کی جانے والی عدالتی ترمیم موجود ہے، ان کا ووٹ موثر نہیں ہوگا۔