نمائندہ امت :
کراچی میں ٹائر پنکچر والوں کا روزگار بڑھ گیا۔ کام بڑھنے پر دکانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ شہر میں موٹر سائیکل کے ٹائروں کے پنکچر لگانے والوں کی دکانیں گلی کوچوں، چورنگیوں پر کھل گئیں۔ جبکہ فٹ پاتھوں، سڑک کنارے دکانیں پولیس اور انسداد تجاوزات عملے کی سرپرستی میں کھل گئی ہیں۔ اکثر کنڈے کی لائٹ استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب کمپریسر سلنڈر کی موجودگی میں حادثات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ رہائشی علاقوں میں کام شروع ہو چکا ہے۔ موٹر سائیکل کے ٹائر کے ایک پنکچر کو تین چار پنکچر بنانا جہاں ان دکانداروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہیں دکان کے اطراف کی سڑکوں پر لوہے کی کیلیں پھینکنا بھی شامل ہے۔ ان دکانوں پر چائنا کی ٹیوب فروخت کی جاتی ہے۔ موٹر سائیکل کے ٹائر کا پنکچر 70 روپے کے بجائے 120 روپے، کار، سوزوکی کا 150، پراڈو ٹیوب لیس 500 روپے جبکہ ٹیوب کے 400 روپے، ڈمپر سمیت ہیوی گاڑیوں کے ٹائر کے پنکچر 4 سے 5 ہزار روپے میں لگائے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق شہر میں 20 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں یومیہ 500 سے 700 نئی خریدی جاتی ہیں۔ اب شہر کا انفرا اسٹرکچرز تباہ ہے کہ سڑکیں، شاہراہیں، گلیاں، فلائی اوور، پل تک میں گڑھوں کی بھرمار ہے جبکہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اس دوران موٹر سائیکل چلانا مشکل ہورہا ہے اور اس کا نقصان مشینری سے زیادہ ٹائروں پر پڑتا ہے اور ٹائر پنکچر ہوتے ہیں اب ایک پنکچر 70 روپے کے بجائے 120 روپے کا لگایا جارہا ہے کہ میٹریل، بجلی مہنگی ہے۔ ٹائر میں ہوا بھر کر اس کو پانی کے چھوٹے ٹینک میں جب چیک کرتے ہیں اس دوران بعض مفاد پرست، لالچی کاریگر کیل سے مزید سوراخ کر دیتے ہیں کہ اجرت مزید بڑھ جائے۔ یہ بھی بولتے ہیں کہ ٹیوب پر 3 یا 4 پنکچر لگنے پر اجرت 450 روپے آئے گی۔ 6 سو روپے میں نئی ٹیوب لے لیں۔ اس طرح غیر معیاری چائنا کی ٹیوب پکڑا دیتے ہیں جبکہ استعمال شدہ پرانی ٹیوب پہلے سے پنکچر لگا کر رکھی ہوتی ہے وہ فروخت کرتے ہیں کہ 300 روپے کی لے لو۔
موٹر سائیکل والوں کا کہنا ہے کہ موجودہ شہر کے حال میں ٹائر پنکچر والوں یا مرمت، آئل بدلی کرنے والوں کا روزگار خوب جم رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں بائیک پنکچر ہو، وہاں قریب ٹائر پنکچر والی دکان ضرور ہوتی ہے کہ کیل دکان کے قریب ہی موٹر سائیکل کے ٹائر میں لگتی ہے اور ٹائر پنکچر ہوتا ہے۔ تاہم دکاندار اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ان کے روزگار میں ویسے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اوچھے ہتھکنڈے نہیں کرتے ہیں اب گلی کوچوں، چورنگیوں پر سیکڑوں دکانیں، شہر میں کھل گئی ہیں کہ بائیک کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دوسرا رکشوں کی تعداد لگ بھگ 2 لاکھ سے زائد ہیں۔ ان میں چنگ چی اور سی این جی والے سمیت دیگر رکشے شامل ہیں۔
ان کے ٹائر پنکچر ہونے پر 150 روپے فی پنکچر لگاتے ہیں۔ گلیوں، چورنگیوں کی دکان پر صرف موٹر سائیکل یا رکشوں کے ٹائر کے پنکچر لگاتے ہیں۔ پیٹرول پمپ سی این جی اسٹیشن پر ریٹ کم ہوتے ہیں اور دھوکے کا کام کم ہوتا ہے جبکہ وہاں کاروں، ڈمپروں، ٹرک، ٹرالر، پراڈو ڈبل کیبن سمیت پر قسم کے ٹائروں کے پنکچر لگائے جاتے ہیں۔ ہیوی گاڑیوں اور ڈمپروں کے ٹائر پنکچر 5 سے 6 ہزار میں لگاتے ہیں۔ ٹریکٹر کے ٹائر بالخصوص بڑے ٹائروں کے پنکچر ہر کوئی نہیں لگاتا ہے اور 5 ہزار سے زائد کی رقم اجرت میں وصول کرتے ہیں۔ آج کل موٹر سائیکلوں، کاروں سمیت دیگر گاڑیوں میں ٹیوب لیس کے ٹائر ہوتے ہیں۔ ان میں الگ سے ٹیوب نہیں ہوتی ہے۔
بڑی ہیوی گاڑیوں کے ٹائر پنکچر زیادہ تر ہائی ویز پر قائم دکانوں پر لگاتے ہیں۔ اب یہ روزگار شہر کے اندر صبح 5 بجے سے رات بارہ بجے تک، شہر سے باہر 24 گھنٹے چلتا ہے کہ شہر میں ٹرالر، ڈمپر، ٹرک، ریتی بجری والے ٹرک، آئل اور واٹر ٹینکرز، کوچیں بسیں رات کو زیادہ نکلتی ہیں۔ ٹرانسپورٹرز خالد خان کا کہنا ہے کہ آج کل ہیوی گاڑیوں کے ٹائر 75 ہزار سے 80 ہزار روپے میں مل رہے ہیں۔ اب ٹائر پنکچر لگا کر بھی 5 ہزار روپے ایک پنکچر کے ادا کرتے ہیں۔ چند سال قبل تک ٹائر پنکچر والے دکان میں کمپریسر سے وہاں موجود سلنڈر بھرتے تھے اور پائپ باہر رکھتے تھے کہ کم ہوا ہونے پر گاڑی والے بھر سکیں۔ اب موٹر سائیکل کے 20 روپے، کار کے 50، بڑی گاڑیوں کے 100 روپے وصول کرتے ہیں کہ بجلی مہنگی ہے۔