بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی۔ پکڑے جانے والے شرپسندوں کو فوری عدالتی ریلیف نہیں مل سکے گا، فائل فوٹو
 بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی۔ پکڑے جانے والے شرپسندوں کو فوری عدالتی ریلیف نہیں مل سکے گا، فائل فوٹو

گنڈا پورایک بار پھرکارکنوں سے ہاتھ کرگئے

امت رپورٹ:

کرپشن کیسز میں سزا یافتہ ’’انقلابی‘‘ عمران خان کی کال پر ’’آخری جنگ‘‘ کے لیے نکلنے والے گنڈا پور ایک بار پھر کارکنوں کو دھوکا دے گئے۔ اعلیٰ سطح سے انتہائی سخت پیغام ملنے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختون پارٹی ورکرز کو اکیلا چھوڑ کر کے پی ہائوس میں جاچھپے۔

دوسری جانب گرفتاریوں کے خوف سے پی ٹی آئی کی تقریباً تمام مرکزی قیادت خود تو گھروں میں دبک گئی تاہم سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹوں کے ذریعے کارکنوں کو پولیس سے تصادم پر اکساتی رہی۔ اس رپورٹ کے لکھے جانے تک گنڈا پور کی گرفتاری سے متعلق متضاد خبروں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ پشاور سے قافلے کے ساتھ آنے والی پی ٹی آئی خیبر پختون قیادت کی واپسی کی اطلاعات بھی موصول ہورہی تھیں۔ شام کو بارش شروع ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک پر پہنچ چکے تھے۔ تاہم رات آٹھ بجے کے بعد پولیس اور رینجرز نے مشترکہ کارروائی کرکے انہیں منتشر کردیا اور ڈی چوک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ذرائع نے رات گئے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا امکان ظاہر کیا اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ شر پسند دوبارہ ڈی چوک پر قبضے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ان ذرائع کے بقول اب جتنی گرفتاریاں ہوں گی، انہیں عدالتوں سے فوری ریلیف نہیں مل سکے گا، کیونکہ ہفتے کی رات بارہ بجے آرٹیکل دوسوپینتالیس کے تحت وفاقی دارالحکومت فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔

ہفتے کے روز بھاری سرکاری مشینری اور مشتعل جتھے کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے والے وزیراعلیٰ خیبرپختون علی امین گنڈاپور نے یہ کہہ کر کے پی ہائوس کی راہ لی کہ ’’ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیا ہے۔ اب ہم بانی پی ٹی آئی سے بات کریں گے اور آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے‘‘۔ یہ ڈائیلاگ بولنے کے بعد گنڈا پور اپنے ان کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کر کے پی ہائوس روانہ ہوگئے، جنہیں وہ پوری طرح چارجڈ کرکے خیبرپختونخوا سے لائے تھے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطح سے ایک انتہائی سخت پیغام ملنے کے بعد علی امین گنڈا پور نے ڈی چوک پر جتھے کی قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور راہ فرار اختیار کی۔

جمعہ اور ہفتہ کی رات اسلام آباد سے باہر پڑائو ڈالنے کے دوران بیک ڈور بات چیت میں حکام انہیں وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن گنڈا پور اسے محض دھمکی سمجھتے رہے۔ تاہم اسلام آباد پہنچنے پر جب انہیں انتہائی سخت پیغام موصول ہوا اور یہ یقین ہو گیا کہ آگے جو کچھ بھی ہونے والا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا تو انہوں نے حسب سابق پسپائی کا فیصلہ کیا اور کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کر کے پی ہائوس چلے گئے۔ پولیس اور رینجرز جب کے پی ہائوس پہنچے تو وہاں موجود مٹھی بھر کارکنوں نے مزاحمت کی کوشش کی جبکہ کے پی ہائوس کے دروازے بند کر لئے گئے جس پر مجبوراً دروازے توڑ کر پولیس اور رینجرز کو داخل ہونا پڑا۔

اس کے بعد ہی علی امین گنڈا پور کو حراست میں لینے کی خبر پھیلی۔ حکومت نے اس کی تردید کی۔ تاہم عمر ایوب کا دعویٰ تھا کہ انہیں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون کی گرفتاری کو لے کر متضاد خبروں کا سلسلہ جاری تھا۔ ذرائع کے مطابق ہفتے کی رات دس بجے تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ انہیں واپس پشاور بھیجنا ہے یا باقاعدہ حراست میں لینا ہے۔

دوسری جانب مرکزی قیادت کی اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹوں سے متاثر کارکنوں نے ڈی چوک جانے کے لئے پولیس پر دھاوا بول دیا۔ بلیو ایریا میں درختوں کو آگ لگائی اور پولیس پر شدید پتھرائو کیا۔ چائنا چوک اور جناح ایونیو پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے جواب میں آنسو گیس کے گولے برسائے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ شرپسندوں کے پتھرائو سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور شام سات بجے کے بعد ایک موقع ایسا بھی آیا کہ چند درجن کارکنان ڈی چوک کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم جلد ہی ان کارکنوں کو منتشر کردیا گیا۔ پولیس کے ساتھ رینجرز کے تازہ دم دستے ڈی چوک پہنچے تھے ، جنہیں دیکھ کر شرپسندوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم ان میں سے بیشتر کو دھرلیا گیا۔ آخری اطلاعات آنے تک گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ چائناچوک اور بلیو ایریا میں موجود پی ٹی آئی کے کارکنان دوبارہ ڈی چوک کی طرف بڑھنے کی پلاننگ میں مصروف تھے۔ ان مشتعل کارکنوں کو کسی پی ٹی آئی رہنما کا ساتھ حاصل نہیں تھا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا گیا تھا۔

اس سارے ہنگامے کے دوران بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب ، شبلی فراز ، علی محمد خان، شعیب شاہین، وقاص اکرم اور اسد قیصد سمیت پی ٹی آئی کی دیگر مرکزی قیادت گھروں میں دبکی رہی ۔ جبکہ کارکنان پولیس پر پتھرائو اور جواب میں آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں کھاتے رہے ۔ کارکنوں کو اشتعال دلانے اور اکسانے کے لئے تحریک انصاف اسلام آباد کے صدر عامر مغل، پارٹی کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم اور قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ ویڈیو پیغام جاری کئے ۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ پہلے ملک کے صدر رہنے والے عارف علوی نے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا اور کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے پر اکسایا۔ اسد قیصر نے تو ڈی چوک پر دھرنے کا اعلان کردیا لیکن ان تمام رہنمائوں نے ’’آخری جنگ‘‘ کی آگ میں کودنے کے لئے نوجوان کارکنوں کو تو اکسایا تاہم اپنے بیوی بچوں سمیت خود گھروں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہے۔

جب علی امین گنڈا پور کارکنوں کو چکمہ دے کر کے پی ہائوس چلے گئے اور مشتعل کارکنان بلیو ایریا میں درختوں کو آگ اور ڈی چوک میں پولیس پر پتھرائو کر رہے تھے تو اس دوران بھی جھنگ کے ٹرانسپورٹر شیخ وقاص اکرم نے نامعلوم مقام سے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گنڈا پور گرفتار بھی ہوگیا ہے تو کارکنان اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ اس دوران حالات خراب کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے بھگوڑے شہباز گل، قاسم سوری اور شہریار آفریدی بھی سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کرتے رہے۔ یہ تینوں اس وقت امریکا میں ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر شرپسندوں کی گرفتاریوں کا فیصلہ کیا ہے جبکہ جائے وقوعہ سے گرفتاریوں کا سلسلہ پہلے ہی شروع کیا جاچکا تھا۔ اہم بات یہ کہ ان گرفتار شرپسندوں کو فوری طور پر عدالتی ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔ کیونکہ وفاقی دارالحکومت ہفتے کی رات سے آرٹیکل دوسوپینتالیس کے تحت فوج کے حوالے ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق ’’مسلح افواج، وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایات کے جواز کو کسی عدالت میں زیر اعتراض نہیں لایا جائے گا۔ کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں جس میں پاکستان کی مسلح افواج، فی الوقت، آرٹیکل دوسوپینتالیس کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کے لئے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل ایک سو ننانوے کے تحت کوئی اختیار سماعت اختیار نہیں کرے گی۔‘‘