نواز طاہر/ محمد قاسم :
صوبائی دارالحکومت لاہور میں پی ٹی آئی کی کال پر کارکنان کے ساتھ ساتھ مقامی لیڈر بھی منظر سے غائب رہے۔ جسے پی ٹی آئی کی کال کو پارٹی کی طرف سے ہی مسترد کیے جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے جبکہ بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ کچھ مخصوص رہنما سامنے آنے کے بجائے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنارہے ہیں۔ دوسری جانب پشاور سمیت خیبرپختون میں بھی کارکنان اپنے رہنمائوں اور اسمبلی ارکان پر شدید برہم ہیں۔ جو ڈی چوک پہنچنے کے بجائے واپس گھروں کو چلے گئے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے مینارِ پاکستان کے سائے تلے جلسہ کرنے کیلئے اجازت نہ ملنے کے باوجود بھرپور اجتماع کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیکورٹی حصار بھی ملحوظ نہیں رکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے دعووں، اعلانات اور سوشل میڈیا مہم کے باوجود لاہور اور اس کے گرد و نواح میں کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ہی دکھائی دیں۔ لیکن کہیں کارکنوں کا بڑا مجمع دکھائی نہ دیا۔ جس پر جی ٹی روڈ شالامار باغ، کینال روڈ، گلبرگ، جوہر ٹائون سمیت شہر کی داخلی و خارجی سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔
اگلے روز بھی پی ٹی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا پر اعلان کیا گیا کہ ممکنہ و مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف احتجاج کیا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے کارکنوں کو خاص طور پر لبرٹی مارکیٹ اور اہم چوراہوں پر جمع ہونے کا پیغام دیا گیا۔ لیکن وہاں نہ تو کارکنوں اور نہ ہی کسی رہنما کو دیکھا گیا۔ لبرٹی چوک میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بھرپور سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ جہاں سیکورٹی اہلکاروں کا بیشتر وقت خوش گپیوں میں گزرا۔
شمالی لاہور کے ایک پی ٹی آئی کارکن نے بتایا کہ بانی پارٹی سے لگن موجود ہے۔ لیکن اب ہماری قیادت کرنے والا کوئی نہیں۔ مقامی رہنما ہمیں تو پیغام دیتے ہیں اور واٹس ایپ گروپ میں بھی تصاویر لگاتے ہیں۔ لیکن خود باہر نہیں نکلتے۔ دو روز کے دوران سوشل میڈیا مہم اور کارکنوں کے متحرک کرنے کے پیغامات کے بارے میں پی ٹی آئی کے کارکن نے بتایا کہ اس نے ملازمت سے چھٹی بھی کی۔ لیکن کوئی سڑک پر آیا ہی نہیں تو پھر وہ اکیلا کیوں نکلتا۔
اس کے مطابق لنڈا مارکیٹ میں صرف علی امین گنڈا پور کا احتجاج سوشل میڈیا پر دیکھا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک متحرک رہنما نے بتایا کہ ’’ہم گھر بار لٹا کر بیٹھے ہیں۔ مفاد پرست ٹولے جماعت پر غالب ہیں اور وہیں شاید بانی پی ٹی آئی کے مشیر ہیں۔ وہ لوگ اب کبھی کبھی میڈیا کی ملی بھگت سے اپنے بیانات جاری کرتے ہیں اور کارکنوں کو پکارتے ہیں، جو نو مئی کے بعد سے روپوش ہوگئے تھے۔ پی ٹی آئی کے منظر سے غائب رہنما سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر پیغام رسانی کرتے ہیں اور اعلانات کرتے ہیں۔ جن میں سابق وزیر حماد اظہر سرفہرست ہیں۔ جو خود سامنے نہیں آتے۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی مقامی رہنما بھی گھروں سے نکلنا بند ہوگئے ہیں۔ لاہور سے منتخب اراکین اسمبلی بھی صرف سوشل میڈیا پر دکھائی دیتے ہیں‘‘۔
شیخوپورہ سے ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ یہاں کارکنوں کو موبلائز ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات قصور سے بھی موصول ہوئیں۔ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنان مقامی اور خاص طور پر پنجاب و لاہور کی تنظیم اور قیادت سے سخت ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قائدین کارکنوں میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔
ادھر خیبرپختون کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس سمیت دیگر رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے والے کارکن پارٹی رہنمائوں سے ناراض نظر آئے۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی راستے سے ہی واپس ہو گئے تھے اور فرنٹ پر ورکرز کو لیڈ کرنے والا کوئی موجود نہ تھا۔ ذرائع کے مطابق متعدد ارکان اسمبلی نے صوبائی حدود ختم ہوتے ہی واپسی اختیار کرلی تھی۔ لیکن رش کے سبب ان کے بارے میں کارکنوں کو معلوم نہ ہو سکا۔ تاہم جب قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تو کوئی بھی رکن اسمبلی موجود نہ تھا جس پر کارکنوں کو شدید مایوسی ہوئی۔
ذرائع کے بقول اپنے رہنمائوں کی اس حرکت پر کارکنان شدید ناراض ہیں۔ ادھر گرفتار کارکنوں کے اہلخانہ کو اپنے بچوں کی ضمانتوں کی فکر ستانے لگی ہے اور اس حوالے سے پارٹی پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیںا ور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کارکنوں کی رہائی کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں اور انہیں بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے۔ ذرائع کے مطابق پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع سے پی ٹی آئی کے کئی کارکنان گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔ دوسری جانب پشاور سے فی الحال اسلام آباد اور راولپنڈی کیلئے ٹرانسپورٹ رکی ہوئی ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات و پریشانی کا سامنا ہے۔
اسلام آباد کے اسپتالوں سے ڈسچارج ہونے والے مریض بھی راستوں کی بندش کے سبب پشاور جانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح پشاور سے اسلام آباد جانے والی مختلف اجناس بھی گاڑیوں اور ٹرکوں میں موجود ہیں۔ جن کے خراب ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
پشاور کی بڑی سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے عبداللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سبزی منڈی سے بڑی تعداد میں سبزیاں اور پھل اسلام آباد کی منڈیوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔لیکن تین دن ہو گئے راستے بند ہونے سے یہ سبزیاں اور پھل ٹرکوں میں موجود ہیں اور ان کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ لاکھوں روپے کے نقصان کی ذمے داری کون قبول کرے گا؟ یہ نقصان تو ہمارا ہوگا اور ساتھ ہی مزدور کی دیہاڑی بھی ضائع ہوجائے گی۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختون سے اسلام آباد جانے والے پی ٹی آئی ورکرز کی بڑی تعداد واپس پہنچ گئی ہے۔ تاہم بہت سے کارکن وہیں پر موجود ہیں اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے ان کو واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ ان کی بھی گرفتاری کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔