محمد قاسم:
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اچانک ڈی چوک احتجاج سے فرار پر تحریک انصاف کے کارکنان سخت ناراض ہیں۔ جبکہ خیبرپختونخواہ کے ارکان اسمبلی بھی آدھے راستے ہی واپس لوٹ گئے تھے جس پر کارکنان میں مزید غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔ اس کے باعث تحریک انصاف کے آئندہ احتجا ج میں کارکنوں کی تعداد مزید کم ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اکیلے لڑتے رہے۔ گرفتار بھی ہوئے۔ بڑی مشکل سے ا پنے گھروں کو پہنچے۔ آئندہ اگر احتجا ج کی کال دی گئی تو پہلے وزیراعلیٰ اور اس کے بعد ارکان اسمبلی حلف دیں گے کہ ہم کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور فرنٹ پر لیڈ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی اچانک ڈی چوک سے واپسی اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں حاضری جبکہ کارکنوں کو تنہا اسلام آباد پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پر تحریک انصاف کے ورکرز شدید ناراض ہیں اور پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں کہ کارکنوں کو اس طرح اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
دوسری جانب گرفتار ورکرز کے اہل خانہ پارٹی عہدیداروں پر سخت برہم ہیں اور ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے بچوں کو ضمانت پر رہائی دلائی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد روانہ ہوئی جبکہ متعدد کارکنان راستوں کی بندش کے خدشے او ر رکاوٹو ں کے باعث دو سے تین دن پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکے تھے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں مقیم تھے۔
انہوں نے تمام تر سفری مشکلات کا بھی سامنا کیا اور راشن وغیرہ بھی ساتھ لے کر گئے۔ تاہم اس دوران جب احتجاج عروج پر پہنچ گیا تو عین وقت پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور احتجاج سے غائب ہو گئے۔ پہلے ان کی گمشدگی کی افواہیں اڑائیں گئیں کہ انہیں گرفتار کرلیاگیا ہے اور یہ غیر قانونی ہے جبکہ حکومت کو چوبیس گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی گئی اس دوران عدالت جانے کا بھی فیصلہ کیاگیا اور مظاہرے بھی شروع ہو گئے۔ جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا گیا۔ تاہم بعد ازاں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس میں نمودار ہو گئے جس کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ کارکنوں کا حوصلہ جواب دے گیا اور مظاہرین آہستہ آہستہ منتشر ہوتے رہے۔
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا سے جانے والے تحریک انصاف کے کارکن بڑی مشکل اور مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے تن تنہا اپنے گھروں تک پہنچے۔ تاہم اس دوران سینکڑوں کی تعداد میںگرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جس میں تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے کارکن نمایاں ہیں۔ ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جو کارکن گرفتار ہوئے ہیں ان کے خاندان والے تو پہلے ہی وزیراعلیٰ کے اس اقدام پر نالاں ہیں جبکہ دوسری جانب کارکنان جو بڑی مشکل سے گھروں کو پہنچے ہیں وہ بھی پارٹی سے ناراض ہیں اور آئندہ پی ٹی آئی کے جلسوں اور احتجاج میں کارکنوں کی شرکت مزید کم ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے ۔
احتجا ج سے واپس آنے والے ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد تک سب کچھ ٹھیک تھا اور کارکن بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ رواں دواں تھے۔ لیکن راستے میں ہی ارکان اسمبلی واپس ہونا شروع ہو گئے تاہم پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور وزیراعلیٰ کے ساتھ چلتے رہے اور تمام راستے جتنی بھی رکاوٹیں تھیں ان کو ہٹایا ۔آنسو گیس و لاٹھی چارج کا بھی سامنا کیا لیکن ڈی چوک تک پہنچ گئے۔ تاہم وزیراعلیٰ کا اچانک وہاں سے غائب ہونا کارکنوں کے لئے تعجب کا باعث تھا۔ کیونکہ اس وقت کوئی بھی کوئی لیڈ کرنے والا ہی نہیں تھا اور ہم اکیلے ہی وہاں موجود تھے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمیں اطلاع دی گئی کہ وزیراعلیٰ کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیاگیا ہے اور اس کے بعد احتجاج میں شدت آگئی تاہم جب وزیراعلیٰ کے گرفتار ہونے کی خبر جھوٹی نکلی اور علی امین گنڈا پور اسمبلی پہنچ گئے تو کارکنوں کے حوصلوں نے جواب دے دیا اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہونا شروع ہو گئے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت نے کارکنوں کو بالکل تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس لئے کارکن بھی ناراض تھے اور احتجاج کے بجائے گھروں کو پہنچنے کو ترجیح دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کو پہنچنے والے پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی ہی پارٹی کے رہنمائوںکی اس حرکت سے ناراض ہیں اور ایسی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ کارکنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے لیڈر ہم سے حلف لیتے تھے اب ہم ان سے حلف لیں گے کہ آپ آدھے راستے سے واپس نہیں جائیں گے او ر کارکنوں کو لیڈ کریں گے ۔ دوسری جانب گرفتار ہونے والے کارکنو ں کے گھروں میں والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ضمانتوں کے لئے وکیل ڈھونڈے جارہے ہیں اور اس حوالے سے پارٹی کی طرف سے ان کی کوئی رہنمائی نہیں کی جارہی اور انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے ۔