ٹائون اور یوسیز کو آوارہ کتے مارنے کی اجازت نہیں- تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، فائل فوٹو
ٹائون اور یوسیز کو آوارہ کتے مارنے کی اجازت نہیں- تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، فائل فوٹو

کراچی میں کتوں کی بدمعاشی بڑھ گئی

اقبال اعوان:
کراچی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ حکومتی ادارے شہریوں کو آوارہ کتوں سے نجات دلوانے میں ناکام ہوئے۔ ٹائون اور یوسیز کی سطح پر کتوں کو مارنے پر پابندی عائد ہے۔ جبکہ شہر میں ان کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ رواں ماہ اور اگلے ماہ تک گرمی کی شدت زیادہ رہے گی اور اس دوران کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شہر میں یومیہ کتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں آنے والوں کی تعداد 200 تک ہوتی ہے۔ ان میں چند لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ بعض معاشی پریشانیوں والے غریب لوگ انجکشن نہیں لگواتے ہیں۔ ایک ہفتے قبل اینٹی ریبیز کی ویکسین دگنی قیمت کی کر دی گئی۔ جبکہ اس سے قبل گوشت، کھال یا ہڈی میں انفیکشن سے بچائو کے اے ٹی ایس انجکشن کی قیمت بڑھا دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ کراچی میں آوارہ کتوں کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ سندھ حکومت ہر بار نمائشی اعلان رکتی ہے۔ تاہم ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں۔

سابق میئر کراچی وسیم اختر نے نجی اسپتال کے ساتھ مل کر کتوں کو مارنے کے بجائے نس بندی کر کے مزید نسل پھیلانے اور کاٹنے کے بعد ریبیز کی بیماری نہ لگنے کے اقدامات شروع کرائے تھے۔ ورلڈ اینمل پروٹیکشن کے ادارے بھی اس میں شامل ہیں۔ کراچی میں آوارہ کتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کچی، مضافاتی، ساحلی، برساتی نالوں کے اطراف کی آبادیوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ ٹائون اور یوسی والوں کے پاس کتوں کے کاٹنے کے واقعات کا شکار ہونے والے جاتے ہیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کو کتے نہ مارنے کی ہدایات ہیں اور خلاف ورزی پر محکمے کی جانب سے کارروائی ہوگی۔

دو ہفتے قبل گلستان جوہر میں معروف ڈاکٹر صفدر خان کے پیچھے آوارہ کتے لگے اور ان سے بچ کر بھاگنے کے دوران گرنے سے ان کے ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ ٹائون، یوسی والوں نے کہا کہ ان پر کتوں کے مارنے کے حوالے سے پابندی عائد ہے۔ کچرا کنڈیوں سے یہ خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ان کے غول کے غول راتوں کو گلی کوچوں میں بھاگتے ہیں۔ راتوں کو آنے والے موٹر سائیکل سوار ان کے پیچھے لگنے کے دوران حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح نماز فجر کے دوران جانے والے افراد کو کاٹتے ہیں۔ اسکولوں کے پاس، گلی کوچوں، مدارس، پارک، میدان، سڑکوں پر سارا دن گھومتے ہیں۔ اسکول، مدارس کے بچے، بچیاں ان کا شکار ہورہی ہیں۔ بزرگ شہری، خواتین بھی شدید خوف زدہ ہیں۔

اس حوالے سے سندھ حکومت نے تمام اضلاع اور سندھ کے شہروں میں لیبارٹری قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے خاموشی ہے۔ چند سال قبل تک ایدھی فائونڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کو آوارہ کتے پکڑنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ایدھی کے ترجمان محمد بلال کا کہنا ہے کہ ان کو کوئی ہدایات نہیں ملی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کتے تو 24 گھنٹے میں کسی وقت کاٹ لیتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں جن میں انجکشن لگنے کی سہولت ہے ان کو ورکنگ ٹائم تک مکمل رکھا جاتا ہے ورنہ دوسرے روز بلواتے ہیں اور پریشان حال لوگ نجی اسپتالوں اور کلینک پر جاکر خاصی فیس ادا کرتے ہیں کہ کتوں کے کاٹنے کے بعد زخم کی جگہ پر بھی اینٹی ریبیز اور انفیکشن سے بچائو کا انجکشن لگتا ہے۔ تین ہفتے تک دو، دو انجکشن اور مہینے کے بعد مزید دو انجکشن لگتے ہیں۔ تب ڈاگ بائٹ کا کورس مکمل ہوتا ہے۔