کارروائی میں الیکٹرونکس مارکیٹ کے بڑے مگرمچھوں کو بچا کر سارا ملبہ ’’کیریئر‘‘ پر ڈال دیا جاتا ہے، فائل فوٹو
 کارروائی میں الیکٹرونکس مارکیٹ کے بڑے مگرمچھوں کو بچا کر سارا ملبہ ’’کیریئر‘‘ پر ڈال دیا جاتا ہے، فائل فوٹو

کراچی ایئرپورٹ سے یومیہ لاکھوں ڈالر اسمگلنگ کا سلسلہ جاری

عمران خان:
کراچی ایئرپورٹ سے دبئی کے لئے لاکھوں ڈالر اسمگلنگ کا سلسلہ نہ رک سکا۔ اسمگلروں کا ایک کیرئیر (رقم کا پیکٹ لے جانے والا کھیپی) کم سے کم اوسطا سالانہ 20 چکر لگاتا ہے۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ تین درجن وزٹ بھی کئے جاتے ہیں۔ یومیہ ایسے 15سے 20 افراد دبئی کی فلائٹس میں فی شخص 10ہزار ڈالرتک لے کر جاتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ بدترین معاشی حالات میں جہاں حکومت کے لئے ایک ایک ڈالر کی اہمیت ہے۔ وہاں یہ مافیا دیمک کی طرح ایئر پورت کسٹمز کلکٹریٹ کے بعض کرپٹ عناصر کی سہولت کاری سے ملکی معیشت کو چاٹ رہی ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں پکڑے جانے والے ملزمان نے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق گزشتہ دنوں کراچی ایئر پورٹ کسٹمز کلکٹریٹ کی جانب سے ایک کارروائی میں دو ملزمان شہروز اور سہیل امین نامی افراد کو گرفتار کیا گیا جو 23 ہزار امریکی ڈالر یعنی 64لاکھ روپے مالیت کے 100سے زائد موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور دیگر سامان کمرشل بنیادوں پر فروخت کے لئے اپنے سامان میں چھپا کر دبئی سے لائے تھے۔ ملزم شہروزنے انکشاف کیا کہ اس نے رواں برس کراچی سے دبئی کے 17چکر لگائے۔ اسی طرح سے سہیل امین نے اعتراف کیا کہ اس نے کراچی سے دبئی کے 19 وزٹ کئے۔

ملزمان نے تفتیش میں یہ بھی انکشاف کیا کہ مجموعی طور پر انہوں نے سال میں جو 36 وزٹ کئے ان میں وہ ہر بار 10ہزار ڈالر کے پیکٹ، اسٹار سٹی مال صدر کے اسمگلروں سہیل دانش ، فیضان اور یاسین کے کہنے پر دبئی منتقل کرتے رہے جو مجموعی طور پر لاکھوں ڈالر بنتے ہیں۔ اس کے عوض وہ کروڑوں روپے مالیت کا سامان ہر چکر میں لے کر آتے رہے۔ اس طرح ڈالرز کی اسمگلنگ اور قیمتی سامان پر ٹیکس چوری سے انہوں نے مذکورہ تینوں اسمگلروں کے کہنے پر ملک کو بدترین نقصان پہنچایا۔

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت الیکٹرانکس مارکیٹوں کے درجنوں اسمگلروں کے ایسے گروپ سرگرم ہیں جو یومیہ ہر فلائٹ میں دبئی کا چکر لگا رہے ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر انہیں کسٹمز حکام اور ایف آئی اے اسٹاف گرفتار کرنے کے بجائے بعض کالی بھیڑوں کی سرپرستی کی وجہ سے سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اب تک تفتیش جاری ہے تاہم کسٹمز حکام ابھی تک اصل اسمگلروں سہیل دانش ، فیضان اور یاسین کو گرفتار کرنے میں ناکام ہیں۔ جبکہ معاملہ صرف ان اسمگلروں کے کیریئرز تک محدود کردیا گیا ہے۔ جنہیں مفت ٹکٹ اور ہر کھیپ پر چند ہزار روپے کے کمیشن کی لالچ میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کیس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اسٹار سٹی مال کا اسمگلر یاسین اپنے ساتھیوں فیضان اور فہیم کے ساتھ کچھ ہی عرصہ قبل اس وقت ایف آئی اے کے ایک بڑے کیس میں نامزد ہوا۔ جب ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کی جانب سے ملک کی بڑی اور کراچی کی مرکزی صدر موبائل مارکیٹ میں حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کے وسیع نیٹ ورک کے حوالے سے خفیہ اطلاعات ملنے پر صدر موبائل مارکیٹ کی اسٹار موبائل مارکیٹ کی چوتھی منزل پر قائم دکان نمبر 403 سے چلائے جانے والے الیکٹرانکس کے سامان کی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کے نیٹ ورک ملزمان فہیم ولد عبدالجبار اور محمد یاسین کی سرپرستی میں چلایا جارہا تھا۔

مذکورہ معلومات پر اس ٹیم نے جب چوتھی منزل پر قائم مو بائل شاپ پر چھاپہ مارا تو یہاں پر ملزمان فہیم ولد عبدالجبار اور محمد یاسین کے پاس ڈیڑھ روپے مالیت کی کرنسی اور حوالہ ہنڈی کی ادائیگیوں کے حوالے سے مواد موجود پایا گیا۔ دوران کارروائی ملزمان کے موبائل فونز کی چھان بین کی گئی جس میں واٹس ایپ پر کئی لوگوں کے ساتھ ہنڈی حوالے کی غیر قانونی ادائیگیوں کی بات چیت ، تصدیقی پیغامات اور موبائل فونز سمیت الیکٹرانکس سامان کی اسمگلنگ کی کھیپوں کی سپلائی کے حوالے سے بات چیت پائی گئی ۔ جس میں کئی دکان دار اور ڈیلرشامل تھے۔

دستاویزات کے مطابق اس چھاپے کے نتیجے میں ملنے والی شواہد کی روشنی میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں بعد ازاں باقاعدہ ایک انکوائری نمبر 56/2022 رجسٹرڈ کرکے مزید تفتیش کا آغاز کیا گیا۔ جس پر بعد ازاں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں مقد مہ الزام نمبر 55/2022درج کیا گیا جس میں فہیم، یاسین ، الیاس اور رضوان کو نامزد کرکے اس کی تفتیش شروع کی گئی۔ تاہم حیرت انگیز طور پر جب اس پر تیزی سے تحقیقات جاری تھیں اور مرکزی ملزمان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے درجنوں دکانداروں کی جانب سے ان کے ذریعے غیر ملکی کرنسی غیر قانونی طور پر خریدنے اور بیرون ملک سے کھیپ سے سامان منگوانے کے ثبوت سامنے آ رہے تھے کہ اس تفتیشی افسرکو کارپوریٹ کرائم سرکل سے ہٹا دیا گیا۔

اس دوران نہ تو ایف آئی اے کی جانب سے مرکزی ملزمان فہیم اور یاسین کو گرفتار کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ بلکہ انہیں ریلیف دیا گیا اور بعد ازاں وہ تین ماہ کے دوران عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں بھی کامیا ب ہوگئے۔ اور یوں ان سے مکمل تفتیش اب تک نہیں کی جاسکی۔ اس طرح سے ایک کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت، اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کا طویل عرصہ سے سرگرم نیٹ ورک اب تک کٹہرے کے پیچھے نہیں لایا جاسکا۔ تازہ معلومات کے مطابق اس اسکینڈل کے مرکزی ملزمان اب دوبارہ سے ریلیف ملنے کے بعد اپنی دکانوں پر سرگرم ہوگئے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ایئر پورٹس سے غیر قانونی طور پر غیر ملکی کرنسی کی منتقلی ، اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث نیٹ ورک سے منسلک بڑے مگر مچھوں نے اپنے تعلقات اور اثر رسوخ کی بنیاد پر چھوٹی مچھلیوں کو فٹ کروانا شروع کردیا۔ تاکہ ایف آئی اے کے افسران بھی حکومت کے سامنے اپنی کارکردگی ظاہر کرسکیں ۔ اس کے لئے کئی ایسے تاجر جنہوں نے ایک دوسرے کے لاکھوں روپے کے لین دین کے تنازعات کو بھی ان کارروائیوں کے ذریعے نمٹانا شروع کردیا ہے جبکہ بڑی مچھلیاں اب تک ان کارروائیوں سے محفوظ ہیں ۔