فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب اسمبلی بانی پی ٹی آئی کے پوسٹرز سے پاک

نواز طاہر:
بانی پی ٹی آئی کے پوسٹر پنجاب اسمبلی سے اٹھوا دیئے گئے۔ یہ پوسٹرز لانے والے بانی پی ٹی آئی کے فالور اراکین اسمبلی نے خود ہی اپنی نشست پرلہرائے جانے والے پوسٹر پھینک دیے جو وہاں سے ہٹوا دیے گئے۔

اس طرح بانی پی ٹی آئی کی تصاویر کا پنجاب اسمبلی میں دوبارہ لائے جانے کا امکان بھی تختم ہوگیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی سربراہ اور وزیراعظم ہونے کے حیثیت سے بھی کبھی پنجاب اسمبلی کی تکریم تسلیم کرتے ہوئے یہاں آنا گوارا نہیں کیا تھا۔ اور اپنی ہی حکومت کی بار بار دی جانے والی دعوت بھی قبول نہیں کی تھی۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کی عمارت پرکئی مہینوں تک کریڈٹ بورڈ بھی خالی رہا تھا۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے قیام کے بعد یہ جماعت سنہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں پہلی بار پنجاب اسمبلی تک رسائی حاصل کرسکی تھی اور نشستیں حاصل کرکے پنجاب کی پارلیمانی جماعت بنی تھی۔ تب اس جماعت کے اراکین ایوان میں بانی پی ٹی آئی کی تصویر والے بیج لگا کر آنا شروع کی شروع ہوئے اور مختلف اوقات میں تصویر والے پوسٹرز بھی لانے لگے تھے جنہیں کبھی نظر انداز کردیا جاتا تھا تو کبھی روک دیا جاتا تھا۔

اسی دوران ایک سے زائد بار سختی سے بھی منع کیا گیا تھا لیکن سنہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں جب اس جماعت کی صوبے میں حکومت بنی تو بانی پی ٹی آئی کے پوسٹرزاور بیج عام ہونے لگے۔ پی ٹی آئی کی بزدار حکومت کے دوران اْس وقت کے اسپیکر کی حیثیت سے چودھری پرویز الٰہی بھی بحیثیت اسپیکر اس طرزِ عمل کو ناپسند کرتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ اس وقت چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے حلیف اور ان کی اتحادی جماعت زور میں تھی اور وہ اس طرز عمل کو ترک کرنے میں بے بس تھے۔

لیکن بزدار حکومت ختم ہونے اور پرویزالٰہی کے اپنے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے یہ اعتراض بھی چھوڑدیا تھا اور اْس وقت کی اپوزیشن کی طرف سے بھی کبھی کبھار اعتراض اٹھایا جاتا تھا تو اسے نظر انداز کردیا جاتا تھا۔ جبکہ اسمبلی روایات ، قواعد اور اخلاقیات کے تحت اس کی اجازت نہیں تھی۔ اسی دوران رواں ماہ پنجاب اسمبلی کے قواعدِ انضباطِ کار میں ترمیم کی گئی اور رواں ماہ اطلاق کیا گیا جن کے تحت ایوان میں پوسٹر وغیرہ لانے اور لہرانے کی ممانعت کی گئی۔

رولز کی ترمیم میں دوسری پارلیمانی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔ لیکن جمعہ کی شام اجلاس میں پی ٹی آئی نے خود (ددوسری جماعتوں سے مشترکہ طور پر) ہی بنائے ہوئے رولز پر بانی پی ٹی آئی کے پوسٹروں کو اولیت و اہمیت دی اور اپنے معمول کے مطابق ایوان میں لا کر اپنی نشستوں پر لگے مائیک پر چپکا دیا اور اور میز لہرا دیا۔ جسے اسپیکر خاموشی سے تکتے رہے اور انہیںہٹائے جانے کے منتظر رہے۔ پون گھنٹہ تک ایوان کی کارروائی اسی طرح چلنے کے بعد مسلم لیگ ن کے رکن احمد اقبال ( فرزند وفاقی وزیر احسن اقبال) نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اسپیکر اور ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی اور اسے قواعد کے منافی قراردیا تو اسپیکر نے اپوزیشن کی طرف رْخ کرکے انہیں مخاطب کرتے ہوئے باور کروایا کہ یہ عمل درست نہیں۔

لیگی رکن احمد اقبال کا کہنا تھا کہ ایوان میں پوسٹر لانا اور لہرانا قواعد کی نفی ہے، اس عمل کو روکا جائے۔ اسپیکر نے یہ اعتراض درست قرار دیا تو اپوزیشن رکن چودھری اعجاز شفیع نے عذر پیش کر نے کی کوشش کی کہ یہ خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ ساتھی اراکین کی گرفتاری پر احتجاج کے لئے لائے گئے ہیں۔ انہوں نے پوسٹرز ہٹانے میں ہچکچاہٹ کی تو اسپیکر نے واضح کیا کہ ایوان میں ان پوسٹروں اور نعروں سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل بامعنی تقریر زور آور ہے جو آپ اسمبلی کے فلور پر کرتے ہیں۔

یہ رولز آپ سب کیلئے تعاون اور اتفاقِ رائے سے بنائے گئے ہیں اور ان کی پابندی کرنا بھی سب پر لازم ہے۔ اس مرحلے پر حکومتی اراکین کی طرف سے بھی شائسگتی کا مظاہرہ کیا گیا اور کہا گیا کہ رولز کی پابندی پر خود عملدرآمد کرنے سے حکومتی اراکین اپوزیشن کیلئے ڈیسک بجائیں گے۔ جس پر چوہدری اعجاز شفیع نے سب سے پہلے اپنی ٹیبل اور اس کے ساتھ لگے مائک سے چپکایا جانے والا پوسٹر ہٹایا اور الٹ کر اپنی نشست کے سامنے ٹیبل پر رکھی دیا۔ کچھ دیگر اراکین نے بھی ایسا ہی کیا اور اسی دوران بانی پی ٹی آئی کی تصاویر والے پوسٹر اسمبلی سیکرٹریٹ کے عملے نے اتا ر لئے اور ایوان سے باہر منتقل کردیے۔اس طرح سنہ دو ہزار تیرہ سے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں بانی پی ٹی آئی کی تصویروں کے آنے جانے کا سفر تمام ہوگیا۔