ٹام سوزی اور جیک برگ مین کا خط ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، فائل فوٹو
 ٹام سوزی اور جیک برگ مین کا خط ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، فائل فوٹو

بیرونی آقاؤں کو پھر عمران خان کی فکر ستانے لگی

امت رپورٹ :
بیرونی آقاؤں کو ایک بار پھر عمران خان کی فکر ستانے لگی۔ اسرائیل نواز دو امریکی ارکان کانگریس نے اپنے وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھا ہے کہ ان کے ’’اثاثے‘‘ کو قید تنہائی سے نکالا جائے۔ واضح رہے کہ حکومت نے سیکیورٹی وجوہات پر اٹھارہ اکتوبر تک عمران خان سمیت اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں سے ملاقات پر پابندی عائد کی ہے۔ جس کے ختم ہونے میں اب محض چار دن باقی ہیں۔ لیکن حسب عادت پی ٹی آئی نے اودھم مچا رکھا ہے۔

ان کے نابغہ روزگار وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں فرمایا ’’عمران خان کے حوالے سے اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ قوم تیار ر ہے‘‘۔ بانی پی ٹی آئی کی سالی مریم ریاض وٹو نے گرہ لگائی ’’ہر گزرتے دن کے ساتھ بشریٰ بی بی اور عمران خان شہادت کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘۔ بچپن سے اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ کوئی بھی بات سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنی چاہیے۔ پتہ نہیں کون سی قبولیت کی گھڑی ہو۔ اب سلمان اکرم راجہ اور پنکی پیرنی کی بہن کو یہ بات کون سمجھائے۔ اس سے پہلے شدومد سے یہ کہا جارہا تھا کہ عمران خان کو زہر دیدیا گیا ہے۔ لیکن ان کے اپنے ڈاکٹر نے اس کی تردید کردی اور کہا تھا ’’خان صاحب! ہٹے کٹے ہیں‘‘۔

پی ٹی آئی کی قیادت کا اصرار ہے کہ ہر صورت عمران خان سے ملاقات کرائی جائے ورنہ عین اس روز ڈی چوک پر دھرنا دیا جائے گا جب شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم ترین اجلاس ہورہا ہوگا۔ پی ٹی آئی قیادت تو بظاہر اپنے بانی چیئرمین کے لیے’’پریشان‘‘ ہے ہی۔ اسرائیل کے پٹھو ارکان کانگریس کو اس سے بھی زیادہ تشویش ہے۔ جیسا کہ رپورٹ کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ دو کانگریس مین نے اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو باقاعدہ خط لکھ مارا ہے۔

ری پبلکن تھامس آر سوزی عرف ٹام سوزی اور جیک برگ مین نے اس خط میں کہا ہے کہ ’’کانگریسی پاکستان کاکس کو چیئرز کے طور پر ہمیں عمران خان کی قید اور خاص طور پر قید تنہائی سے متعلق اطلاعات پر سخت تشویش ہے۔ ہم عمران خان کی موجودہ صورت حال پر تحریری درخواست کر رہے ہیں کہ محکمہ خارجہ ہمیں پاکستان میں بدلتی ہوئی صورتحال پر سہ ماہی اپ ڈیٹ فراہم کرے۔ جس قدر ممکن ہو اس معاملے پر ہمیں بریف کرنے کے لیے ایک نمائندہ مقرر کیا جائے‘‘۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی ارکان کانگریس کو بانی پی ٹی آئی کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ بالخصوص جب سے عمران خان کو آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے تب سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ انہیں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جمہوریت کی پامالی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کے خلاف اس پروپیگنڈے پر ارکان کانگریس کو لگانے میں پی ٹی آئی کے اوورسیز کارندے پیش پیش ہیں۔ انہی کی فرمائش پر ارکان کانگریس نے تازہ لیٹر امریکی وزیرخارجہ کو لکھا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ پاکستان میں متعدد وزرائے اعظم کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے محروم کیا گیا اور انتہائی خطرناک مقدمات بناکر قید تنہائی سمیت کال کوٹھریوں میں رکھا گیا۔ لیکن سیاسی و انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے پیٹ میں کبھی مروڑ نہیں اٹھا۔ عمران خان کی حمایت میں بولنے والے امریکی ارکان سینیٹ ہوں یا کانگریس مین، ایک بات مشترک ہے کہ وہ یہودی النسل ہوتے ہیں یا اسرائیل نواز۔

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو تازہ خط لکھنے والے دونوں ارکان کانگریس کی بھی یہی کہانی ہے۔ ان میں سے ٹام سوزی رواں برس کے اوائل میں ہی دوبارہ کانگریس کا رکن بنا ہے۔ اس کی جیت میں یہودی ووٹرز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑتا ہے۔ وہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ سوزی نے اپنی جیت کے بعد تقریر میں کہا ’’میں اپنے ان یہودی ووٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ کھڑے رہے‘‘۔ سوزی کو ان کے حلقے کے یہودیوں نے صرف ووٹ ہی نہیں ڈالے۔ بلکہ یہودی تنظمیوں نے اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے الیکشن مہم میں پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ سوزی کے حامیوں میں جیوش ڈیموکریٹک کونسل آف امریکہ اور ڈیمو کریٹک میوٹی فار اسرائیل پولیٹیکل ایکشن کمیٹیاں شامل تھیں۔ ہر کمیٹی نے ڈیجیٹل اور پرنٹ اشتہارات کے ساتھ فون بینکنگ میں بھی کھل کر پیسہ خرچ کیا اور نتیجتاً سوزی کو کامیاب کرالیا۔ ان کے لیے سوزی کی کامیابی اس لیے ضروری تھی کہ وہ صہیونی عزائم اور فلسطین میں نہتے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام سے متعلق اسرائیلی پالیسی کا زبردست حامی ہے۔

اسی طرح جیک برگ مین بھی یہودیوں اور اسرائیل کی آنکھ کا تارہ ہے۔ وہ نہایت بے شرمی سے فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کے حق دفاع سے تعبیر کرتا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کا ایک برس مکمل ہونے پر ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا ’’آج سے ایک سال پہلے، دنیا نے ناقابل تصور ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا، جب حماس نے اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اس طرح کے گھناؤنے حملوں کے خلاف اس کے دفاع کے حق کی حمایت کرے گا‘‘۔ تاہم برگ مین کے منہ سے ان چالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کے لیے ایک لفظ نہیں نکلا جنہیں قابض اسرائیلی افواج نے بے دردی سے قتل کیا، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اندازہ کریں کہ ٹام سوزی، جیک برگ مین اور ان جیسے دیگر اسرائیل نواز اور فلسطینیوں کے قتل عام کے حامی ارکان کانگریس سے اپنی حمایت میں بیان، خطوط اور قراردادیں منظور کراکے پی ٹی آئی خوشی سے بغلیں بجاتی ہے۔ جبکہ عمران خان کے اندھے تقلید کار اسے اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام بیانات اور قراردادیں اب تک بے کار کی مشق ثابت ہوئی ہیں۔ اسرائیل نواز یہ امریکی قانون ساز نہ عمران خان کے مقدمات ختم کرا سکے ہیں اور نہ انہیں جیل سے رہا کراسکے ہیں۔ اقتدار میں واپس لانا تو دور کی بات ہے۔ ارکان کانگریس کا حالیہ خط بھی امریکی وزیر خارجہ نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔

ارکان کانگریس کو اس سے مطلب بھی نہیں کہ ان کی سنی جارہی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس حمایت کے بدلے ان کا ذاتی مفاد پورا ہو رہا ہے۔ ایک مفاد یہ ہے کہ اپنے حلقہ انتخاب میں انہیں یہودیوں کے ساتھ عمران خان کے حامیوں کا ووٹ بھی مل جائے اور دوسرا پیسے کی وصولی۔ ان ارکان کانگریس سے عمران خان کے حق میں بیانات جاری کرانے میں وہ امریکی پی آر اور لابنگ فرمیں بنیادی کردار ادا کررہی ہیں۔ جنہیں پی ٹی آئی نے بھاری معاوضے کے عوض ہائر کیا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ لابنگ فرمیں مفت میں تو بیانات نہیں دلواتی ہوں گی۔ قصہ مختصر ارکان کانگریس کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کے بیانات یا قراردادیں رنگ لا رہی ہیں یا نہیں۔ البتہ یہ تاریخ ضرور لکھی جارہی ہے کہ جب اسرائیل اپنی بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ کر معصوم بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا تو ایسے میں پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی اور اس کا سربراہ اسی قتل عام کے حامی امریکیوں سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر اسی پارٹی نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے بلائے گئے قومی اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اپنے چہرے کی سیاہی میں مزید اضافہ کیا۔