خوفزدہ یہودی شہری ملک چھوڑ کر فرار ہونے لگے، فائل فوٹو
خوفزدہ یہودی شہری ملک چھوڑ کر فرار ہونے لگے، فائل فوٹو

اسرائیل میں خانہ جنگی کی پیش گوئی

عبداللہ بلوچ :
آسٹریلیا کے معروف صحافی سی جے ورلیمین نے اسرائیل میں خانہ جنگی کی پیش گوئی کردی ہے۔ ورلیمین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل عنقریب اپنا وجود کھو دے گا۔ اسرائیلی معاشرہ اس وقت چار حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا انتہا پسند یہودی، دوسرا دہری شہریت کے حامل سیکولر یہودی، تیسرا عیسائی اور چوتھا مسلمان ہے۔ جو کئی شہروں میں ایک ہی یا آس پاس کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ورلیمین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا انتہا پسند آباد کاروں کے ساتھ اتحاد ملک کو جنگ کی گہرائی میں دھکیل رہا ہے۔ کیونکہ آباد کاروں کی تحریک طاقت کے ذریعے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان آباد کاروں کو لاکھوں کی تعداد میں جدید اسلحہ کا پر مٹ جاری کرنا ملک میں اندورنی تصادم کا پیش خمیہ ہے۔ یہ انتہا پسند یہودی اسرائیل کے سیکولر اور عیسائی طبقے کے ساتھ بھی محاذ آرائی سے دریغ نہیں کرتے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران مغربی کنارے میں دس ہزار عربوں کے گھر مسمار اور جلادیئے گئے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی دہشت گردی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ اسرائیل کے عسکریت پسند اور سیکورٹی کے وزیر Itamir Ben Gvir فلسطینیوں کے جذبات بھڑکانے کیلئے ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔ جس سے اسرائیل میں ایک وسیع پیمانے پر خونریزی جنم لے سکتی ہے۔

دوسری جانب طوفان الاقصیٰ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی معاشرہ غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔ اب تک چھ لاکھ سے زائد اسرائیلی ملک چھوڑ کر مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرچکے ہیں۔ رواں برس مزید ستّر ہزار سے زائد اسرائیلی شہری ملک چھوڑ گئے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق 38 فیصد شہری بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

عبرانی چینل ’کان‘ کی طرف سے ’کنٹر‘ انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے کیے گئے سروے کے مطابق چالیس فیصد شہریوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل جنگ ہار چکا ہے۔ جبکہ 27 فیصد افراد کو یقین ہے کہ اسرائیل جیت گیا۔ اسی سروے میں 41 فیصد شہریوں نے کہا کہ فوج پر ان کا اعتماد کم ہو گیا ہے اور 86 فیصد شہریوں کا خیال کہ غزہ کے قریبی بستوں میں ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

اسی طرح شمالی اسرائیل بالخصوص حیفہ جیسے بڑے شہر میں بھی واپسی کے عمل میں طویل عرصہ درکار ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ایک اور سروے کے مطابق دو تہائی اسرائیلی شہریوں نے ملک کی موجودہ سیکورٹی صورتحال کو اپنے لئے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ اس رائے عامہ میں ممتاز تجزیہ کاروں اور محققین نے بھی حصہ لیا۔ جن میں فوجی تجزیہ کار آموس ہیرل بھی شامل ہے۔

ادھر تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فورم فار فلسطین اسٹڈیز کے سربراہ مائیکل ملسٹین کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے اسرائیلی معاشرہ مسلسل بگاڑ کی جانب گامزن ہے۔ جبکہ سیاسی حل کے بجائے بندوق کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جس سے مسئلہ مزید سنگین نوعیت میں بدل رہا ہے۔ عبرانی اخبار میں شائع ایک مضمون میں ممتاز صحافی ارلیچ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے بعد سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ طویل جنگ اسرائیل کے حق میں نہیں اور نہ ریزرو فوج طویل جنگ کیلئے اپنی خدمات فراہم کرے گی۔

اسرائیل میں نئے فوجیوں کی بھرتی کا معاملہ بحران کا شکل اختیار کرچکا ہے۔ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو اس اندھی جنگ کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتی۔ درحقیقت اسرائیل شکست کھا چکا ہے۔ انہوں نے دو برس قبل اخبار ایہودوت اہرونوت میں شائع رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودیوں کیلئے 80 سال سے زیادہ عرصے تک کوئی ریاست قائم نہیں کی گئی۔ موجودہ حالات سے لگ رہا ہے کہ اسرائیل اپنے وجود کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔