ارشاد کھوکھر:
کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کرنے والے اعلیٰ پولیس افسران کے آپس میں ہی دست و گریباں ہونے کے باعث کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف پہلے ہی غیر موثر ثابت ہونے والا آپریشن اب ٹھپ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ پولیس افسران کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور خطوط ارسال کرنے کے باعث بعض اراکین اسمبلی اور بااثر وڈیروں کی ڈاکوئوں کو حاصل پشت پناہی بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل مارے گئے بدنام زمانہ ڈاکو عمر شر کیسے مارا گیا وہ معاملہ بھی معما بنا دیا گیا ہے۔ اس صورت حال کی سنگینی کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایس ایس پی گھوٹکی نے ڈاکوئوں سے گٹھ جوڑ کرنے کے الزام میں ایس ایچ او شکور لاکھو کو خود گرفتار کرا لیا جس کے بعد سندھ پولیس میں کھلبلی مچ گئی۔
گھوٹکی، کشمور اور سکھر کے ڈاکوئوں کو متعلقہ بااثر وڈیروں، بعض اراکین اسمبلی کی پشت پناہی حاصل ہونے اور خود کئی پولیس افسران و اہلکاروں کی کچے کے ڈاکوئوں سے گٹھ جوڑ ہونے کی بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن 14 اکتوبر کو ہونے والے واقعے نے اس حوالے سے تمام راز فاش کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ایم پی اے شہریار شر جس پر پہلے ہی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ ان کے ڈاکوئوں کے شر گینگ سے گہرے روابط ہیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہوا کچھ یوں تھا کہ خود اعلیٰ پولیس افسران نے شہریار شر کو ڈاکوئوں سے ڈیل کرانے کا ٹاسک دیا تھا جس کے بعد انہوں نے گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں درجنوں ڈاکوئوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر کے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد سابق ایم پی اے شہریار شر بدنام زمانہ ڈاکو عمر شر جس کے سر کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے حکومت نے مقرر کی ہے انہیں ڈیل کے سلسلے میں ایس ایس پی گھوٹکی حفیظ اللہ بگٹی سے ملاقات کرانے کے لیے ایس ایس پی کے کیمپ آفس لے گئے وہاں کیا ڈیل اور بات چیت ہوئی اس کے قطع نظر ملاقات کے بعد جب عمر شر اور سابق ایم پی اے شہریار شر واپس آرہے تھے تو حملہ ہو گیا۔ جس میں ڈاکو عمر شر مارا گیا اس کے بعد سابق ایم پی اے شہریار شر کے قریبی دوست علی محمد شر کے مارے جانے کی اطلاعات بھی آگئیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوا کچھ یوں تھا کہ سابق ایم پی اے ڈیل کے سلسلے میں جب ڈاکو عمر شر کو ایس ایس پی سے ملاقات کے لیے لے جارہے تھے تو عمر شر کے بھائیوں نے ضمانت کے طور پر شہریار شر کے قریبی دوست علی محمد شر کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا ایسے میں جب عمر شر کے مارے جانے کی ان کے پاس اطلاع پہنچی تو علی محمد شر کو بھی انہوں نے بدلے میں مار دیا۔ تاہم سابق ایم پی اے شہریار شر کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ عمر شر اس کے ساتھ نہیں تھا وہ کیسے مارا گیا اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ نہ ہی ڈاکوئوں سے ڈیل کے متعلق انہیں کوئی ٹاسک ملا تھا۔
بعض پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سابق ایم پی اے شہریار شر اور ڈاکو عمر شر ملاقات کے بعد ایس ایس پی آفس سے نکلے تو ایس ایس پی آفس کے ایک آپریٹر حکیم گڈانی نے سب انسپکٹر شکور لاکھو کو اطلاع دی۔ ان تک اطلاع پہنچنے کے بعد حملے میں عمر شر مارا گیا۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو کچے کے ڈاکوئوں سے جب کوئی ڈیل کرنی ہوتی ہے یا کسی کو آزاد کرانا ہوتا ہے تو ایسے کام میں سب انسپکٹر شکور لاکھو کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور وہ پہلے بھی ڈاکوئوں سے رابطوں کے الزام میں معطل ہو چکے ہیں۔
مذکورہ واقعہ ہونے کے بعد ایس ایس پی گھوٹکی حفیظ اللہ بگٹی نے شکور لاکھو کے خلاف ایف آئی آر درج کرا کے انہیں گرفتار کرا لیا اور اس سلسلے میں آئی جی سندھ پولیس نے ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کی تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ انکوائری میں شکور لاکھو کے ناصرف ڈاکوئوں سے گہرے روابط ہونے بلکہ اس سے بھی کچھ آگے کے معاملات سامنے آئے۔
شکور لاکھو کے گرفتار ہونے پر کئی اعلیٰ پولیس افسران میں کھلبلی مچ گئی۔ جس کے بعد ڈی آئی جی سکھر پیر محمد شاہ نے ایس ایس پی گھوٹکی حفیظ اللہ بگٹی کے 16 اکتوبر کو آئی جی سندھ پولیس کو لیٹر ارسال کیا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ ایس ایس پی خود ڈاکوئوں سے ملے ہوئے ہیں۔ جس کے بعد ناصرف شہریار شر نے ڈی آئی جی سکھر کے خلاف صدر مملکت کو لیٹر ارسال کیا بلکہ ایس ایس پی حفیظ اللہ بگٹی کے خلاف لیٹر ارسال ہونے معاملے پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی فون کر کے شکایت کی۔
اس طرح سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے آپس میں دست و گریباں ہونے کے باعث کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن عملی طور پر اب پس منظر میں چلا گیا ہے اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ڈاکو (عمر شر) کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر ہو اس کے متعلق پولیس اور ڈاکوئوں میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کررہا ہے کہ انہوں نے انہیں مارا ہے۔