ملزمان کو دہشت گردی سمیت دفعہ 382 اور 436 میں بری کیا جاتا ہے، فائل فوٹو
ملزمان کو دہشت گردی سمیت دفعہ 382 اور 436 میں بری کیا جاتا ہے، فائل فوٹو

قادیانی ارتداد خانہ کیس حتمی مراحل میں داخل

سید حسن شاہ :
قادیانی ارتدادخانہ کیس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا۔ اہلسنت ہیلپ ڈیسک و مدعی مقدمہ کے وکیل قادیانی ملزم کو سزا دلانے کیلئے پُرامید ہیں۔ منظور احمد میو راجپوت ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ آئین کے تحت قادیانی پاکستان میں ایک انچ جگہ بھی اپنے ارتداد خانہ کیلئے نہیں لے سکتے۔ کیونکہ قادیانی باقاعدہ طور پر کوئی مذہب ہی نہیں۔ ٹرائل کے دوران ثابت کردیا ہے قادیانیوں کا ارتداد خانہ مسجد نظر آتی ہے۔ جبکہ ٹھوس ثبوت و شواہد بھی پیش کردیئے گئے ہیں۔ قادیانیوں کے خلاف گواہان کے بیانات قلمبند کرادیئے گئے ہیں۔ قادیانی ملزم کا بیان اور وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

29 ستمبر 2022ء کو صدر کے علاقے پریڈی اسٹریٹ پر واقع قادیانی ارتداد خانے پر شعائر اسلام کے استعمال اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے خلاف مقدمہ عبدالقادر پٹیل اشرفی کی مدعیت میں تھانہ پریڈی میں درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ کے چالان میں ابتدائی طور پر قادیانی ملزمان صباحت احمد، سلیمان، نعیم اللہ اور رشید کو نامزد کیا گیا۔ تاہم بعد میں قادیانی ملزمان سلیمان، نعیم اللہ اور رشید کے مکمل کوائف نہ ہونے پر ان کو چالان نہیں کیا گیا۔

مقدمہ میں ملزم صباحت احمد نے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ یہ مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جہاں مقدمہ حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس کیس میں مدعی مقدمہ، پرائیویٹ گواہان، پولیس افسر و اہلکار سمیت 9 گواہوں کو شامل کیا گیا تھا۔ جن میں سے مجموعی طور پر 7 گواہوں کے بیانات قلمبند کرادیئے گئے ہیں۔ جبکہ دو گواہوں کے نام واپس لے لئے گئے تھے، کہ ان دونوں گواہوں کے بیانات دیگر گواہوں کے بیانات سے ملتے جلتے تھے۔ جن گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں سے 4 گواہوں نے قادیانی ملزم کو شناخت بھی کیا اور اس کے خلاف بیانات بھی قلمبند کرائے ہیں۔ جس سے کیس مضبوط ہوگیا ہے۔ مقدمہ میں اب ملزم صباحت کا بیان اور وکلا کے حتمی دلائل ہونا باقی ہیں۔ جس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

کیس سے متعلق اہلسنت ہیلپ ڈیسک و مدعی مقدمہ کے وکیل منظور احمد میو راجپوت ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’پریڈی اسٹریٹ میں واقع قادیانی ارتداد خانے پر شعائر اسلام استعمال کرنے کا مقدمہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ مقدمہ میں ملزم کو سزا ہوگی۔ کیونکہ ملزم پر جو فرد جرم عائد ہوئی ہے کہ ان کے ارتداد خانے پر مینار بنائے جانے کی وجہ سے وہ مسجد نظر آتی ہے، جس پر دفعہ 298 بی اور سی لاگو ہوتی ہے اور ہم نے یہ بات ثابت کردی ہے۔

جبکہ اس چیز پر وکیل صفائی نے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ دوسری اور اہم بات یہ کہ آئین پاکستان کے تحت قادیانی پاکستان میں ایک انچ جگہ بھی اپنے ارتداد خانے کیلئے نہیں لے سکتے۔ کیونکہ قادیانی باقاعدہ طور پر کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ جبکہ انہوں نے عدالت میں ارتداد خانے سے متعلق دستاویزات جمع کرائی ہیں کہ احمدی جماعت ایسوسی ایشن کو اگست 1862ء میں یہ زمین ملی تھی اور اس کی 100 سالہ لیز 1961ء میں ختم ہوئی۔

جبکہ یہ مدت پورے ہونے کے بعد کی دستاویزات میں ایس اے عبدالخالق ولد عبدالوحید کے نام پر زمین ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قادیانیوں کا مذہب 1889ء میں وجود میں آیا تھا اور ان کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔ جب ان کا مذہب 1889ء میں وجود میں آیا تو انہیں 1862ء میں ارتداد خانے کیلئے کیسے جگہ مل گئی۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے قادیانیوں کو ارتداد خانے کیلئے کسی قسم کی کوئی زمین نہیں دی گئی ہے۔ قادیانی زمین کی دستاویزات جمع کرواکے خود ہی پھنس گئے ہیں‘‘۔

منظور احمد ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھاکہ مقدمہ میں مجموعی طور 9 گواہوں کو شامل کیا گیا تھا۔ جن میں 6 مدعی و پرائیویٹ گواہان اور 3 پولیس افسر و اہلکار شامل ہیں۔ مقدمہ میں تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ صرف تفتیشی افسر کے بیان پر جرح باقی ہے۔ اس کے بعد ملزم کا بیان ریکارڈ ہوگا۔ پھر وکلائے طرفین کی جانب سے حتمی دلائل دیئے جائیں گے اور پھر مقدمہ کا فیصلہ سنادیا جائے گا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا ’’عدالت میں ہماری جانب سے ٹھوس ثبوت و شواہد جمع کرادیئے گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس مقدمہ میں قادیانی کو سزا ہوگی‘‘۔