متاثرہ شہری رپورٹ درج کرانے سے کترانے لگے، فائل فوٹو
متاثرہ شہری رپورٹ درج کرانے سے کترانے لگے، فائل فوٹو

کراچی میں جیب تراشی کی یومیہ 200 وارداتیں

اقبال اعوان :
کراچی میں جیب تراشی کی وارداتیں بڑھ گئیں یومیہ 200 سے زائد وارداتیں کی جا رہی ہیں۔ پولیس کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی۔ جبکہ متاثرہ شہری رپورٹ کرانے سے کترانے لگے ہیں کہ مسروقہ موبائل یا رقم واپس نہیں ملے گی اور الٹا پولیس والے پریشان کریں گے۔ شہر میں جیب کتروں کے کئی گروپ سرگرم ہیں۔ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ماڑی پور روڈ، شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، کورنگی روڈ اور ابوالحسن اصفہانی روڈ پر وارداتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ واضح رہے کہ شہر میں جہاں لوٹ مار کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہیں جیب تراشی کی وارداتیں بھی خاصی بڑھ گئی ہیں۔ صبح دفتر یا فیکٹری جانے والے اور شام کو واپسی پر جب زیادہ رش ہوتا ہے۔

اس وقت جیب تراش خوب وارداتیں کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے اطراف واقع میڈیکل اسٹورز پر آنے والے افراد اور مزارات پر زائرین ان کے خاص ہدف ہیں۔ شہر کے تھانوں میں اگر کوئی متاثرہ شہری چلا جائے تو کہا جاتا ہے کہ روزنامچہ بنوا لیں اور موبائل سم بلاک کرانے یا قومی شناختی کارڈ و دفتر کے کارڈ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرنے کا کہا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ لیکن جیب کترے پولیس کی پکڑ میں نہیں آتے۔ اگر عوام پکڑ کر حوالے کریں، تب بھی مسروقہ موبائل اور رقم واپس نہیں ملتی۔

کراچی میں اس وقت شاہ لطیف ٹائون سے تعلق رکھنے والا جیب کتروں کا گروپ ممتاز سندھی سرگرم ہے۔ جس کے کارندے صبح سے رات تک مسلم کوچ، مروت کوچ، 16 نمبر ویگن میں وارداتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح ماڑی پور روڈ پر مچھر کالونی سے گلبائی پھاٹک تک سلام بنگالی، محبوب بلوچ اور دیگر جیب کتروں کے گروپ سفر سرگرم ہیں۔ 20 نمبر بس میں زیادہ وارداتیں کینٹ اسٹیشن سے کلفٹن، عبداللہ شاہ غازی مزار کے سامنے اور اطراف میں ہوتی ہیں۔ سوائے اتوار کے، روزانہ درجنوں وارداتیں ہوتی ہیں۔ شاہراہ فیصل پر گورا قبرستان، نرسری، بلوچ کالونی، ڈرگ روڈ، ملیر کالا بورڈ پر ان گروپوں کے افراد چڑھتے ہیں۔ جو سرجیکل بلیڈ سے واردات کرتے ہیں۔

گروپ کے کارندے گاڑی میں چڑھ کر جائزہ لیتے ہیں اور ٹارگٹ کرکے واردات کرتے ہیں۔ تین چار کارندے مل کر شکار کو گھیر کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اور دائیں بائیں سے دباکر یا اترتے وقت موبائل یا رقم سے محروم کر دیتے ہیں۔ موبائل نکالنے والوں کے ساتھی جگہ جگہ موبائل اور رقم لے کر اتر جاتے ہیں کہ اگر متاثرہ افراد پکڑ کر تلاشی بھی لے تو بھی کچھ نہ ملے۔

اگر مددگار 15 یا کسی تھانے کی موبائل سے رابطہ کیا جائے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ فلاں تھانے کی حدود ہے۔ وہاں جاکر رپورٹ کرو۔ شاہراہ فیصل پر ویگنوں، کوچوں میں رش کے دوران خواتین کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان گروپوں میں شامل عورتیں موقع دیکھ کر موبائل فون اور پرس سے نکال لیتی ہیں۔ بعض اوقات رقم، سونے کی چین تک غائب کر دی جاتی ہے۔ شہر میں یہ وارداتیں زیادہ تر رمضان کے مہینے میں کی جاتی تھیں۔ لیکن اب دوسرے شہروں سے آنے والے جیب کترے گداگروں کے روپ میں آکر وارداتیں کر رہے ہیں۔

پولیس اس جرم کو بہت چھوٹا قرار دیتی ہے۔ بعض اوقات اس طرح بھی ہوتا ہے کہ جیب کترا پکڑ لیا جائے تو سادہ کپڑے والے پولیس اہلکار آجاتے ہیں۔ جو جیب کترے کو تھانے میں لے جانے کا بول کر ساتھ لے جاتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ان کے ساتھی تھے۔