تزئین و آرائش پر کے پی کے حکومت سے کروڑوں روپے خرچ کرائے، فائل فوٹو 
تزئین و آرائش پر کے پی کے حکومت سے کروڑوں روپے خرچ کرائے، فائل فوٹو 

بشریٰ یا علمیہ۔ کس کا دھڑا زیادہ مظبوط ہو گا ؟

امت رپورٹ

یہ خبریں میڈیا پر عام ہیں کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی رہائی ایک ڈیل کے تحت ہوئی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمجھوتے کے تحت ہونے والی اس رہائی کے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اگرچہ علی امین گنڈاپور کی طرح بشریٰ بی بی کی جانب سے بھی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے دکھاوے کی گھن گرج دکھائی دے سکتی ہے لیکن جن یقین دہانیوں پر جیل سے انہیں آزادی ملی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جائے گا۔ جس پر اب تک علی امین گنڈا پور بھی پوری طرح عمل کر رہے ہیں۔

بشریٰ بی بی کے بعد آنے والے چند دنوں میں عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی رہائی کا بھی امکان ہے۔ جس کے بعد انتشار کا شکار پی ٹی آئی میں مزید دھڑے بندیاں متوقع ہیں۔ کیونکہ عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی کو کمان کرنے سے متعلق نند اور بھاوج کے مابین اصل چپقلش کا آغاز ہوگا۔ بشریٰ اور عمران کی قید کے دوران علیمہ خان نے پس پردہ پارٹی کے بہت سے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے اور پارٹی کے بیشتر فیصلوں پر وہ اثر انداز ہورہی تھیں۔

پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد کے اہم عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ تب ’’علیمہ باجی‘‘ نے تقریباً روز پارٹی کے مرکزی دفتر آنا شروع کردیا تھا۔ ان کے آتے ہی دفتر کے عہدیداران کی دوڑیں لگ جایا کرتی تھیں۔ علیمہ خان بہت سے معاملات پر ہدایات بھی جاری کیا کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ وہ براہ راست وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا کو بھی احکامات جاری کرنے لگی تھیں۔

پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے خیبرپختونخواہ میں موجود اہم ذرائع نے بتایا کہ بنی گالہ کی سب جیل سے جیسے ہی بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تو بنی گالہ کی رہائش گاہ کا کنٹرول بھی علیمہ خان نے سنبھال لیا تھا۔ جس کے بعد علیمہ خان نے بنی گالہ کی تزئین و آرائش کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے لئے انہوں نے علی امین گنڈا پور کو ہدایت کی تھی کہ پیسوں کا انتظام کیا جائے۔ یوں علیمہ خان کی ہدایت پر کے پی کے حکومت کے کروڑوں روپے کے فنڈز بنی گالہ کی تزئین و آرائش کے لئے استعمال ہوئے۔ بعد ازاں علیمہ خان نے بنی گالہ پر اپنے گارڈز بٹھادیئے تھے۔ اب بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ گارڈز ہٹادیئے گئے ہیں یا وہیں موجود ہیں۔

بشریٰ بی بی نے اپنی رہائی کے بعد کچھ دیر بنی گالہ میں قیام کیا ، جس کے بعد وہ علی امین گنڈا پور سے ملنے پشاور روانہ ہوگئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد بشریٰ بی بی یہ برداشت نہیں کریں گی کہ علیمہ خان پارٹی فیصلوں پر اثر انداز ہوں یا مختلف معاملات پر پارٹی عہدیداروں کو ہدایات جاری کریں۔ بلکہ وہ ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گی ، جس کے بعد دھیمی آنچ پر ہونے والی چپقلش گرما گرمی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ فوری طور پر یہ امکان نہیں کہ بشریٰ بی بی علی الاعلان پارٹی کی کمان سنبھال لیں گی۔ تاہم وہ بھی علیمہ خان کی طرح درپردہ معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے یہ ممکن نہیں کہ کوئی پارٹی رہنما ان کی ہدایات کے آگے چوں و چرا بھی کرسکے۔ ان ذرائع کے بقول بشریٰ بی بی کی رہائی کے فوری بعد ہی خوشامدی پارٹی رہنمائوں نے ان کے نزدیک ہونے کی لابنگ شروع کردی ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں سے کس کا پلڑا بھاری رہے گا؟ اس سلسلے میں عمران خان کے قریب رہنے والے ایک اہم ذریعے کا کہنا تھا کہ پلڑا اس کا ہی بھاری ہوگا، جسے عمران خان سپورٹ کریں گے۔ ابتدا میں بشریٰ بی بی بظاہر ہولڈ کرتی دکھائی دے سکتی ہیں لیکن عمران خان پر زیادہ اثر و رسوخ علیمہ خان کا ہے۔ شروع سے ہی عمران خان پر علیمہ خان کا بہت زیادہ اثررسوخ رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی چار بہنوں میں سب سے زیادہ علیمہ خان ان کے قریب ہیں اور دونوں میں بہت زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

ذریعے نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خیالات اور دیگر معاملات میں دونوں کے مابین اس قدر ہم آہنگی ہے کہ آپ علیمہ خان کو عمران خان کا ’’فی میل ورژن‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دونوں میں کبھی تلخ کلامی یا اختلاف نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن پھر دونوں ایک ہوجاتے ہیں۔ ذریعے کے مطابق اس نوعیت کے ایک واقعہ کے وہ خود بھی عینی شاہد ہیں، جب ریحام خان اور عمران خان کی نزدیکیاں بڑھ رہی تھیں تو ان خبروں پر علیمہ خان سمیت عمران خان کی دیگر بہنیں خوش نہیں تھیں۔ وہ ریحام خان اور عمران خان کی شادی کے خلاف تھیں۔ اس معاملے میں عمران خان کا قریبی دوست اور انصاف ٹرسٹ کا ممبر موبی خان بھی ان کا ہمنوا تھا۔

ذریعے نے بتایا کہ ریحام خان سے شادی کے حتمی فیصلے کے بارے میں سب سے پہلے عمران خان نے موبی خان کو بتایا تھا۔ جس پر اس نے عمران خان کی بہنوں کو اس سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ بہنوں اور عمران خان کے مابین سخت تلخ کلامی ہوئی۔ حتیٰ کہ رات کے بارہ ایک بجے علیمہ خان اور ایک دوسری بہن ناراض ہوکر بنی گالہ سے چلی گئیں۔ دونوں ایئرپورٹ پہنچیں تو فوری کوئی فلائٹ دستیاب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک بہن کو چار پانچ گھنٹے تک ایئرپورٹ پر بیٹھنا پڑا اور دوسری بائی روڈ لاہور پہنچ گئی تھی۔

ذریعے کے مطابق اگرچہ عمران خان کی بہنوں نے کبھی بھی ریحام خان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا لیکن عمران خان سے ان کے تعلقات دوبارہ معمول پر آگئے تھے۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کے مابین بھی تعلقات مثالی نہیں۔ اس حوالے سے خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ تاہم بشریٰ بی بی کے لئے علیمہ خان اور دیگر بہنوں کی ریحام خان جیسی مخالفت نہیں ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ابتدا میں بظاہر عمران خان، بشریٰ بی بی کو سپورٹ کرسکتے ہیں، تاہم دل سے وہ علیمہ خان کے ساتھ ہوں گے۔ چنانچہ دونوں کے ممکنہ گروپوں میں سے آخر کار پلڑا علیمہ خان کا ہی بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔