کانگریس اپنی حد میں رہے، پاکستان امریکا کی نوآبادی نہیں، سیاسی رہنمائوں کا ردِعمل، فائل فوٹو
 کانگریس اپنی حد میں رہے، پاکستان امریکا کی نوآبادی نہیں، سیاسی رہنمائوں کا ردِعمل، فائل فوٹو

عمران کیلیے کانگریس ارکان کی دخل اندازی پر سیاستدان برہم

نواز طاہر:

امریکی کانگریس ارکان کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے مطالبے پر پاکستانی سیاسی رہنمائوں نے اظہار برہمی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ناپسندیدہ عمل اور خود امریکی طرز عمل کے منافی ہے۔ امریکی کانگریس اپنی حد میں رہے اور یاد رکھے کہ پاکستان، امریکا کی نوآبادی نہیں۔ سیاسی رہنمائوں نے اسے پاکستان کے وقار اور تشخص کیخلاف پی ٹی آئی کی امریکا میں بیٹھی لابی کی سازشوں کا تسلسل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اداروں کے خلاف سازشیں کرنے والے بیرونی ممالک میں پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

ماضی میں مختلف ادوار میں سیاسی اسیر رہنے والے سینیئر سیاسی رہنما احسان وائی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’اس طرح کے خطوط کی ریاستوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لیکن بعض معاملات اور معروضی حالات میں ان کے مندرجات اور حساسیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی قیدی اگر اپنے آپ کو سیاسی سمجھتے ہیں تو پھر وہ کسی دوسرے ملک سے اپنے ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور ایسے اقدامات کی باتیں نہیں کریں جو ملک کے وقار اور اس کی سالمیت کے منافی ہوں‘‘۔

سیاست سے کنارہ کش ساہیوال جیل کے سابق اسیر چوہری دین محمد کا کہنا تھا کہ ’’عالمی سطح پر مجموعی سیاسی صورتحال کا ذکر تو کیا جاتا ہے، لیکن کسی مخصوص پارٹی کے لیے پارٹی بن کر سامنے آنا دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت تصور ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود امریکی سیاست میں ان کی اپنی آلودگی بھی دنیا کے سامنے ہے۔ موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں سیاسی کارکن منصفانہ شفاف طرز سیاست کی بات کرتے ہیں۔ لیکن کیا امریکا میں یہ سب کچھ شفاف شفاف ہے؟ تو اس کا جواب ہے، ایسا نہیں ہے۔ امریکی انتخابات پر دھاندلی کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔

درحقیقت عالمی تناظر میں امریکہ بہادر کو اس کے سامنے انکھیں نہ اٹھانے والے ممالک کو زیر نگیں رکھنے کے بہانے چاہیئں۔ اگر جو بائیڈن انتظامیہ اس خط کے حوالے سے پیش رفت کرتی ہے تو پاکستان کو سخت رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاست کا تعلق ہے تو سیاست اپنی جگہ پر، اداروں کا احترام اور ان کا اپنی حدود میں رہنا اپنی جگہ پر۔ یہ اصول سب پہ لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ملک دشمنی کے اقدامات اور اس کے لیے اکسانا قابل قبول نہیں ہونا چاہیئے۔ جہاں تک کانگرس کے ارکان کے خط کا تعلق ہے تو اس کی ایک حساسیت بھی موجود ہے کہ یہ خاص جماعت سے متعلق ہے اور اس میں عالمی سطح پر ملک کے خلاف لابنگ کے نتائج کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ جبکہ بانی پی ٹی آئی کا اپنا رویہ انداز طرز سیا ست جارحانہ رہا ہے۔

اس امریکی کانگریس کے خط کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اس پر رد عمل بھی ایسا ہی آنا چاہیے تھا جو پاکستان کی طرف سے آیا ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر جمہوری ایوانوں کی طرف سے رد عمل سامنے آنا چاہیے کہ امریکی کانگریس اپنی حد میں رہے‘‘۔ سابق رکن پنجاب اسمبلی اور سابق 86 اسیر ڈاکٹر ضیا اللہ بنگش کہتے ہیں کہ ’’اگر امریکہ کسی طریقہ کار کے مطابق انسانی حقوق برباد کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی معاشی اور سماجی انصاف کے ساتھ سیاسی قیدیوں کے حوالے سے بات کرے تو اسے اس کے مطابق جواب دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکے۔ مگر یہ خط ایک باقاعدہ سوچ اور کسی ممکنہ عمل کی عکاسی کرتا ہے۔

امریکی کانگریس کو غزہ اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ کشمیر میں معصوم انسانوں پر ظلم کرنے والی امریکہ نواز بی جے پی کو حال ہی میں جو شکست ہوئی ہے، وہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنا پر رد عمل ہے۔ امریکہ کو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی دکھائی نہیں دیتی اور صرف پاکستان میں ان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اپنی ہی عینک سے میں مخصوص انداز سے دکھائی دیتی ہے تو یہ سوالیہ نشان ہے۔‘‘

ایک سابق سیاسی رہنما اسد اشرف کا کہنا تھا کہ ’’بانی پی ٹی آئی کی ملک دشمن انڈسٹری کی پروڈکشن کا کانگریس لیٹر بے معنی نہیں، بلکہ اس جماعت کے بانی کی پاکستان کے اندر اداروں کو کھوکھلا کرنے توڑنے کے بعد بیرون ممالک میں پاکستان دشمن سرگرمیوں کی نشاندہی ہے۔ اس جماعت سے اس طرح کے خطوط اور اقدامات کے ساتھ ساتھ لابنگ کے کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں اور یہ عوام کے سامنے بے نقاب ہو رہے ہیں۔‘‘