نواز طاہر:
پی ٹی آئی کے بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی لاہور میں اپنے گھر زمان پارک منتقل ہوگئی ہیں اور اسے سنوارنا شروع کردیا ہے۔ وہ دو روز پہلے ہی لاہور عمران خان کو مطلع کرکے منتقل ہوئیں۔ اس سے پہلے عدالتی حکم پر رہائی کے بعد انہوں نے پشاور میں ایوان وزیر اعلیٰ میں قیام کیا تھا۔ اسلام آباد سے لاہور تک سابق وزیراعظم کی اہلیہ کو قانون اور سیکیورٹی کے تحت پروٹوکول فراہم کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق لاہور پہنچنے کے بعد انہوں نے بانی پی ٹی آئی کے کمرے کی صفائی کروائی اور اس کے بعد لان کی گھاس کٹوائی۔ بشریٰ بی بی کی ڈیوٹی پر موجود سرکاری اور غیر سرکاری اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ البتہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے رہائش گاہ پر اپنے قیام کے دوران امن و امان کا ماحول برقرار رکھنے میں تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کو معمول کے مطابق الرٹ رہنے کی بات بھی کی۔ تاہم رہائش گاہ پر پولیس کی پکٹس پر اعتراض کیا۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ سیکیورٹی کے نکتہ نظر سے قائم کی گئی ہیں اور انتہائی اہم ہیں۔
سابق وزیراعظم کے سیکیورٹی پروٹوکول کے تحت یہ لازم ہیں۔ جس پر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ دوسری جانب بشریٰ بی بی کی واپسی پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے کوئی قابل ذکر سرگرمی سامنے نہیں آئی۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بھرپور انداز میں ان کی واپسی پر ان کا استقبال ممکن نہیں اور نہ ہی ان کی رہائی کے بعد پارٹی کی جانب سے استقبال کی کوئی باقاعدہ پلاننگ کی گئی تھی۔ جبکہ کسی کو اس حوالے سے مطلع بھی نہیں کیا گیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی نے بانی پی ٹی آئی کے کمرے کی صفائی اور لان کی گھاس کٹوانے کے سوا کوئی اور قابل ذکر کام نہیں کیا۔ بیشتر وقت اپنے کمرے میں گزارا۔ یہاں تک کہ باورچی خانے تک بھی نہیں گئیں۔
ملاقاتوں کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ان سے کسی کی ملاقات پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ گھر کی مالکہ ہیں اور ان کی اجازت سے کوئی بھی ان سے ملاقات کر سکتا ہے۔ وہ آزادانہ کہیں بھی آ جا سکتی ہیں۔ البتہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ کی حیثیت سے انہیں سیکورٹی فراہم کی جائے گی اور حفاظتی امور کا خیال رکھا جائے گا۔ ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اس پر سیکیورٹی کو کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم سیکورٹی بیریئر کا کلیئر ہونا ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق اس امر کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے گھر کی سیکورٹی متاثر نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی آزادی بھی متاثر نہ ہو۔ سروس روڈ اور گلیاں کھلی رہیں۔ سیکیورٹی امور کے تحت صرف بانی پی ٹی آئی کے گھر کی حد تک سامنے کے حصے میں سروس روڈ پر سیکورٹی وال قائم کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد بھی زمان پارک میں رہائش پذیر ہے۔ لیکن ان میں سے تاحال کسی قابل ذکر فرد نے بشریٰ بی بی سے ملاقات نہیں کی۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی کا پہلے بھی میل جول محدود اور مخصوص تھا۔ وہ عام کارکنوں سے ملاقات نہیں کرتی تھیں۔ بلکہ چند مخصوص رہنماؤں اور ذاتی تعلقات رکھنے والوں سے ہی میل جول تھا۔
پی ٹی آئی کے کچھ ذرائع نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئندہ دو چار روز میں بعض رہنما بشریٰ بی بی سے ملاقات کریں گے اور ممکنہ لائحہ عمل پر رہنمائی حاصل کریں گے۔ ان ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی اگلی سیاسی حکمت عملی کے بارے میں مستند بات ان کی ہی ہو سکتی ہے، جنہوں نے حال ہی میں بشریٰ بی بی سے ملاقات کی۔ جس کے بعد وہ لاہور منتقل ہوئیں۔ کیونکہ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے بنی گالہ کے بجائے بہتر تحفظ کیلئے خیبر پختون کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی سرکاری میزبانی قبول کی تھی۔ جہاں سے انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ان کی لاہور منتقلی سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ انہیں شاید گرفتار کرنا مقصود نہیں رہا اور وہ یہاں محفوظ ہیں۔
ایسی صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے انہیں کچھ ہدایات دی ہوں۔ دوسری طرف نو مئی کے واقعات کے بعد پارٹی سے غیر اعلانیہ پیچھے ہٹ جانے اور ایک برس کے عرصے کے بعد میڈیا میں سرگرم ہونے والے رہنماؤں جن میں کچھ خواتین رہنما بھی شامل ہیں، کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی سے ملاقات کی پلاننگ کر رہی ہیں اور ان کی رہائی پر ان کی رہائش گاہ کے اندر استقبالیہ دینا چاہتی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں بانی پی ٹی آئی کے گھر سے تصدیق یا تردید نہیں ہو رہی۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سخت اور مشکل وقت میں سائیڈ لائن ہونے والے فصلی بٹیرے اب پھر سے متحرک ہوکر پارٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان ذرائع کے مطابق ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بشریٰ بی بی زمان پارک میں کتنا عرصہ قیام کرتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر پانی پی ٹی آئی کی طرف سے بشریٰ بی بی کو سیاسی عمل میں متحرک ہونے کی کوئی ہدایت کی جاتی ہے تو کارکنان یقینی طور پر لبیک کہیں گے اور متحرک ہو جائیں گے۔ اس سے پارٹی بھی متحرک ہوگی۔ جبکہ پہلے سے موجود قائدین کے غیر متحرک ہونے کی وجہ سے پارٹی میں روز بروز انتشار بڑھ رہا ہے۔ کئی رہنما من مانیاں کرتے ہیں۔ جس میں ایسی من مانی بھی شامل ہوتی ہے جو کارکنوں کو مشکلات میں ڈال دیتی ہے۔