عمران خان:
انتہائی مضر صحت کیمیکل اور اجزا سے تیار ہوکر فروخت ہونے والا جعلی کیچپ گلے اور پیٹ کے کینسر سمیت دیگر امراض کا سبب بن گیا۔ بن کباب، برگر اور فرنچ فرائز سمیت دیگر فاسٹ فوڈ کی دکانوں اور ٹھیلوں پر یومیہ ہزاروں لیٹر جعلی کیچپ کھایا جاتا ہے۔ فوڈ ڈپارٹمنٹ سمیت متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ٹماٹو کیچپ کے نام پر روزانہ لاکھوں افراد کو غیر معیاری چاولوں کا آٹا اور ’’ڈائنگ کلر‘‘ کا مکسچر کھلایا جا رہا ہے۔ صحت کیلئے انتہائی مضر اور جعلی ٹماٹو کیچپ کی تیاری میں گھٹیا قسم کے پرانے چاولوں کا آٹا اور پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ کیچپ کو کھٹا اور میٹھا بنانے کیلئے اس میں ’’سکرین‘‘ اور سائٹرک ایسڈ‘‘ شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس گاڑھے ملغوبے کو ٹماٹروں والا سرخ رنگ دینے کیلئے اس میں رنگ شامل کیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملغوبے میں فوڈ کلر یعنی کھانے کے رنگ کے بجائے ’’ڈائنگ کلر‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔ اس تمام آمیزے کو چھوٹے سے مشینی پلانٹ میں پریشر اسٹیم دے کر گرم کیا جاتا ہے۔ ابلنے کے بعد ٹھنڈا کرکے پلاسٹک کے خالی کینوں میں بھر دیا جاتا ہے۔
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جعلی ٹماٹو کیچپ تیار کرنے والوں نے قانونی کارروائی سے بچنے کیلئے اپنے تیار کردہ کیچپ کے کینوں پر جو اسٹیکر چسپاں کیے ہوتے ہیں۔ ان پر کیچپ میں شامل اجزا بھی تحریر کیے جاتے ہیں۔ انتہائی باریک الفاظ میں ان اجزا کے نام لکھے جاتے ہیں۔ جن میں رائس پائوڈر، فوڈ کلر، چینی یعنی شوگر، لہسن، ادرک اور سرکہ وغیرہ کے نام شامل ہوتے ہیں۔ تاہم درحقیقت رائس پائوڈر بھی غیر معیاری ہوتا ہے اور چینی کی جگہ سکرین اور فوڈ کلر کی جگہ ڈائنگ کلر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکلز صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔
جبکہ یہ جعلی کیچپ تیار کر نے والے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجزا اسٹیکر پر تحریر کردیتے ہیں۔ تاکہ کارروائی ہونے پر بتا سکیں کہ انہوں نے اجزا میں ٹماٹر کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اس لئے وہ بری الذمہ ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ روزانہ لاکھو ں افراد اس ملغوبے کو ٹماٹو کیچپ سمجھ کر کھاتے ہیں اور یہ مفاد پرست عناصر بھی اس کیمیکل زدہ آمیزے کو ’’ٹماٹو کیچپ‘‘ کہہ کر ہی فروخت کررہے ہیں۔
مارکیٹ سروے کے مطابق بزرٹہ لائن، محمود آباد، اعظم بستی، شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی، گلشن اقبال، اورنگی ٹائون، لیاقت آباد، کورنگی اور صدر سمیت کئی علاقوں میں اس مضر صحت کیچپ تیار کرنے کے کار خانے موجود ہیں۔ شہر بھر کے ہزاروں برگر والوں اور دیگر کینٹینوں پر برگر، پکوڑوں، سینڈوچز اور چپس کے ساتھ جو ’’ٹماٹو کیچپ‘‘ پیش کیا جاتا ہے، اس میں ٹماٹر سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ جعلی اور انتہائی مضر صحت ہے۔ تاہم تمام چیزیں علم میں ہونے کے باوجود متعلقہ حکومتی ادارے مسلسل غفلت برت کر ہزاروں افراد کو گلے اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا کرنے میں معاونت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت تین قسم کے ٹماٹر کیچپ تیار اور فروخت ہو رہے ہیں۔ پہلے نمبر پر وہ ٹماٹر کیچپ ہے، جو مختلف معروف کمپنیوں کی جانب سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایک کلو سے آدھا کلو کے پائوچز اور پلاسٹک کی بوتلوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ معیاری ٹماٹر کیچپ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی قیمت فی کلو 150 سے 200 روپے ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ ٹماٹو کیچپ ہے۔ جو مختلف مقامی کارخانوں اور گھروں میں بن رہا ہے۔
یہ پانچ کلو کی پلاسٹک کی بالٹیوں میں فروخت ہوتا ہے۔ دکاندار اس کو کھلا فروخت کرتے ہوئے 100 روپے کلو کے حساب سے بیچتے ہیں۔ یہ ٹماٹو کیچپ بھی معیار کے اعتبار سے مناسب ہوتا ہے اور اس میں ٹماٹر کے پیسٹ کے علاوہ مرچیں اور لہسن وغیرہ بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ چونکہ اس وقت مارکیٹ میں ٹماٹر 150 سے 200 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔ اس لئے کھلے فروخت ہونے والے ٹماٹو کیچپ کی قیمت میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے۔
تاہم حیرت انگیز طور پر جو کیچپ روزانہ لاکھوں افراد برگر والوں اور چپس والوں سے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کی قیمت 50 روپے ہے۔ برگر اور چپس والوں کو اس کیچپ کا 5 کلو والا کین جوڑیا بازار اور شہر کے دیگر سپلائر 250 روپے کے حساب سے دے رہے ہیں۔ حالانکہ صرف 5 کلو والا پلاسٹک کا خالی کین ہی بازار سے 50 روپے سے زائد میں ملتا ہے۔
اس طرح سے اس کین کے اندر 5 کلو کیچپ کی کل قیمت 200 روپے کے قریب بنتی ہے۔ یعنی یہ کیچپ صرف 50 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ جبکہ صرف ٹماٹر ہی 150 سے 200 روپے کلو ہیں اور دیگر مصالحہ جات کی قیمت اس کے علاوہ ہے۔ اس لئے یہ حیرت انگیز بات ہے کہ یہ کیچپ تیار کرنے والے اس کو 20 روپے کلو میں کیسے فروخت کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب برگر اور چپس والوں کے مطابق وہ یہ ٹماٹو کیچپ جوڑیا بازار کی دکانوں سے خرید کر لا رہے ہیں۔
جبکہ کئی برگر والوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ہر روز سپلائر خود کیچپ کے کین لے کر آتا ہے۔ ان کی ضرورت کے مطابق ان کو کین دے کر چلا جاتا ہے۔ اس لئے ان کو نہیں معلوم کہ یہ کیچپ کہاں پر تیار ہو رہا ہے۔ جب ان برگر والوں سے کہا گیا کہ وہ یہ کیچپ سپلائی کرنے والوں کے فون نمبر دیں تو ان کا جواب تھا کہ چونکہ سپلائر ان کے پاس خود آتے ہیں۔ اس لئے ان کو فون نمبر کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ سپلائر سے نمبر لے کر نہیں رکھتے۔ جوڑیا بازار کی چند دکانوں پر بھی اس کے تیار کردہ جعلی ٹماٹو کیچپ کے کین رکھے جاتے ہیں۔ جوڑیا بازار میں درجنوں دکانوں پر ایسے کیچپ کے ہزاروں کین موجود ہیں۔ جن پر چند کمپنیوں کے اسٹیکر لگے ہوتے ہیں۔ ان کے خریدار ان دکانوں سے اس کیچپ کے 5 کلو والے کین 250 روپے میں روزانہ بڑی تعداد میں خرید کر لے جاتے ہیں۔ ان کلو کے پلاسٹک کے کین میں دستیاب ٹماٹو کیچپ کی کھپت میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
ادھر جوڑیا بازار کے سروے میں ایک دکاندار نے بتایا کہ 200 روپے کلو ٹماٹر اور دیگر مصالحہ جات کے ساتھ فی کلو ٹماٹو کیچپ کی تیاری پر آنے والی لاگت ہی 200 روپے سے زائد بنتی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ تو خود 40 سے 50 روپے کلو کے حساب سے ٹماٹو کیچپ فروخت کر رہا ہے، تو اس نے جواب دیا کہ یہ ٹماٹو کیچپ تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو ’’رائس پائوڈر‘‘ اور ’’ڈائنگ کلر‘‘ کا مکسچر ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس کی مانگ اتنی زیادہ ہے کہ وہ اس آئٹم کو اپنے پاس رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ نہیں رکھتا تو گاہک دوسری دکانوں پرچلے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں لاکھوں شہریوں کی صحت سے کھیلنے والوں کا کاروبار عروج پر ہے۔ جبکہ محکمہ صحت اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کے ارباب اختیار آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں ۔