محمد قاسم :
پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس وقت انتہائی پریشانی سے دوچار ہیں۔ اعلیٰ قیادت کی طرف سے انہیں جو ٹاسک دیئے گئے ہیں۔ اس نے ان کے ہوش اڑا دیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر صوبائی اسمبلی کے رکن کو اسلام آباد مارچ کے لئے 5 ہزار اور قومی اسمبلی کے ممبران کو دس، دس ہزار ورکرز لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ جبکہ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کے انتظامات بھی ان کے سپرد کیے گئے ہیں۔ ممبر صوبائی و قومی اسمبلی کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے ورکرز کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بناکر شیئر کرتے رہیں اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھیں۔ اسی طرح تمام ان ارکان اسمبلی کو حاضری یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ گرفتاری سے بچنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں اور گرفتاری سے بچنے کا محفوظ طریقہ خیبرپختون کا رخ کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبے میں چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ لہذا اگر کارکنوں و پارٹی رہنمائوں کے خلاف کریک ڈائون اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پشاور میں یہ رہنما محفوظ رہیں گے اور یہیں سے 24 نومبر کو قافلے کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوں گے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ جو تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کیلئے ہے۔ وہ اتنی بڑی تعداد میں ورکرز کو ساتھ لے جانا ہے۔ کیونکہ لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی چھوٹا سا ہدف بھی مکمل نہیں کر پائے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار ممبران اسمبلی نے سر پکڑ لئے ہیں اور کارکنوں کی تعداد کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے یونین کونسلز کی سطح پر ورکرز کو اکٹھا کرنے کیلئے حکمت عملی طے کرنا شروع کر دی ہے اور ناظمین و کونسلرز کی مدد لی جارہی ہے۔ جبکہ تاجر برادری سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی مارچ میں شرکت کی دعوت دی جائے۔
ذرائع کے بقول پی ٹی آئی سے وابستہ تاجر تنظیمیں ہی فی الحال مارچ میں شمولیت کیلئے آمادہ ہیں۔ اس کے علاوہ عوام پی ٹی آئی کے مارچ اور احتجاج سے خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پشاور سے بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ پشاور کے شہری ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔ اسی لئے پی ٹی آئی نے دیگر اضلاع پر نظریں زیادہ مرکوز کر لی ہیں۔ سوات، ایبٹ آباد، شانگلہ، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور صوابی سے کارکنوں کے اسلام آباد پہنچنے کیلئے پُر امید ہیں جو بڑے قافلے میں شامل ہوکر روانہ ہوں گے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اشیائے خورونوش سمیت ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے ذمے لگایا گیا ہے۔ اس سے بھی رہنما پریشان ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد مارچ اور احتجاج کے اعلان کے باعث صوبائی اسمبلی کا اجلاس 26 نومبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز منعقد ہوا تو ارکان اسمبلی کی تعداد کم تھی۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی نے ایجنڈے کی کارروائی جلد نمٹاکر اجلاس 26 نومبر تک ملتوی کر دیا۔
ادھر پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں تحریک انصاف کی جانب سے ورکرز کنونشن اور کارنر میٹنگز سمیت ریلیوں کا سلسلہ بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے تیاریاں کی جارہی ہیں۔ذرائع کے بقول پنجاب سے مزید ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی پشاور آمد کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ جس کا مقصد گرفتاریوں سے بچنا ہے۔ کیونکہ گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کا حوصلہ جواب دے سکتا ہے۔