گنڈاپور نے کن شرائط پر سابق خاتون اول کو رہائی دلائی، عمران خان کی بہنوں کو سائیڈ کردیا، فائل فوٹو
گنڈاپور نے کن شرائط پر سابق خاتون اول کو رہائی دلائی، عمران خان کی بہنوں کو سائیڈ کردیا، فائل فوٹو

کیا بشریٰ بی بی ڈیل سے منحرف ہوگئیں؟

امت رپورٹ:
’’بشریٰ بی بی ایک ڈیل کے تحت باہر آئیں۔‘‘ یہ موضوع چل چل کر گھس چکا ہے، لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ڈیل کیا تھی؟ اس بارے میں مختلف آرا ہیں۔

تاہم ایک اندر کے باخبر بھیدی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ ڈیل وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کرائی۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے بتاتے چلیں کہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد پی ٹی آئی میں مزید گروپ بندی کی جو پیش گوئیاں کی جارہی تھیں، خاص کرکے پارٹی پر کنٹرول کے لیے نند اور بھاوج کے مابین جس ممکنہ کشمکش کا ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر ذکر کیا گیا تھا، اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ بشریٰ بی بی عملاً پارٹی کی کمان سنبھال چکی ہیں اور انہوں نے علیمہ خان کو سائیڈ کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کے بعض رہنما اگرچہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ کہ سابق خاتون اول احتجاج کے سلسلے میں بلائے جانے والے اجلاس میں شریک نہیں تھیں، انہوں نے صرف عمران خان کا پیغام پہنچایا۔ لیکن واقفان حال اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی نے نا صرف پارٹی کی کمان سنبھال لی ہے بلکہ بلا شرکت غیرے حکمرانی کے لیے عمران خان کی بہنوں کو مکمل طور پر پارٹی معاملات سے الگ کردیا ہے۔ بشریٰ بی بی کی اسیری کے دوران علیمہ خان نے ناصرف پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں بیٹھنا شروع کردیا تھا بلکہ وہ احکامات بھی جاری کرتی تھیں۔ یہ خبر بھی ’’امت‘‘ نے ہی بریک کی تھی۔

بعد ازاں میڈیا میں یہ بھی آیا کہ ایک روز علیمہ خان وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو بتائے بغیر پشاور اور بنوں پہنچ گئی تھیں، جہاں انہوں نے جیل کاٹنے والے اور ناراض پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ ناراض کارکنوں نے علی امین گنڈاپور اور دیگر رہنماؤں کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیئے۔ ذرائع کے بقول گنڈاپور خود بھی علیمہ خان کی جانب سے پارٹی معاملات میں مداخلت سے پریشان تھے اور انہوں نے اس کی شکایت عمران خان سے بھی کی تھی۔ تاہم اب ان کی یہ مشکل بشریٰ بی بی نے دور کردی ہے، جنہیں جیل سے رہائی دلانے میں انہوں نے ہی بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ شاید آگے چل کر انہیں اپنے اس اقدام پر پچھتانا پڑے۔

موجودہ صورتحال کے عینی شاہدین کے بقول پارٹی پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ بشریٰ بی بی اس وقت ایک طرح سے ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا بھی ہیں۔ وہ مہارانی کی طرح وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ایک آرام دہ کمرے اور انیکسی میں رہائش پذیر ہیں جہاں انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔ اس انیکسی میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ بھولے سے بھی اس طرف چلا جائے۔ بشریٰ بی بی نے صرف اپنے خاندان کی چند خواتین کو ساتھ رکھا ہوا ہے۔ اور بعض قریبی رشتے دار خواتین کا وہاں آناجانا لگا رہتا ہے۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بشریٰ بی بی کی آؤ بھگت سے واقف پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ایک نظریاتی عہدیدار نے کہا ’’عمران خان کی بہنوں نے اب تک وزیر اعلیٰ ہاؤس کی شکل تک نہیں دیکھی۔ انیکسی میں قیام تودور کی بات ہے۔ چوبیس مارچ کے احتجاج سے متعلق اجلاس، جس سے بشریٰ بی بی نے خطاب کیا، اس کے لئے خیبرپختونخوا اور پنجاب بھر کی قیادت اور ارکان کو بلایا گیا تھا۔ لیکن علیمہ خان سمیت عمران خان کی کسی بہن کو مدعو نہیں کیا گیا۔ کیونکہ یہ بشریٰ بی بی کی ہدایت تھی۔

وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے بھی کبھی علیمہ خان کو لفٹ نہیں کرائی۔ نہ انہیں کبھی پروٹوکول دیا گیا۔ لیکن بشریٰ بی بی کے لیے انہوں نے آنکھیں بچھائی ہوئی ہیں اور تابعداری کی مثال قائم کررہے ہیں۔ ایک طرح سے ان سے زیادہ وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول بشریٰ بی بی کو مل رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ پندرہ نومبر کو پشاور میں ہونے والے اجلاس میں پارٹی رہنماؤں اور عہدے داروں سے پردے کے پیچھے خطاب کرتے ہوئے بشریٰ بی بی نے کہا تھا کہ چوبیس نومبر کو احتجاج کے لئے ہر حلقے سے ایم این اے دس ہزار اور ہر ایم پی اے پانچ ہزار افراد ساتھ لائے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جو ایم این اے یا ایم پی اے اپنے ساتھ لوگ نہیں لائے گا، اسے پارٹی سے باہر کیا جائے گا اور جو پارٹی رہنما، ایم این اے یا ایم پی اے احتجاج سے پہلے گرفتار ہوا وہ بھی پارٹی سے باہر سمجھا جائے گا۔

جبکہ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ اپنے دس منٹ کے خطاب میں بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنمائوں، ارکان پارلیمنٹ اور عہدے داروں سے یہ شکوا بھی کیا کہ اب تک انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ ان کے خطاب کے اس حصے کا لب لباب یہ تھا کہ ’’آپ لوگوں نے کیا مذاق بنایا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے آپ مزے اڑا رہے ہیں اور باہر ہیں وہ (عمران خان) اندر ہے۔‘‘

نظریاتی عہدے دار نے بتایا کہ رشتے داروں کے علاوہ باہر کی خواتین میں سے صرف ایک ہے جو، ان کے بہت نزدیک ہے اور اس پر انیکسی کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ اس کا نام ہے، مشعال یوسف زئی۔ یہ وہی مشعال یوسف زئی ہے جو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جیل میں اسیر بشریٰ بی بی کی حالت زار کے بارے میں دکھ بھری کہانیاں بیان کیا کرتی تھی۔

الیکشن میں کامیابی کے بعد خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد جب صوبائی مشیر کے طور پر مشعال یوسف زئی کی تقرری ہوئی تو پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ میں اس پر بہت سی آوازیں اٹھیں کہ مشعال یوسف زئی کی پارٹی کے لئے ایسی کیا خدمات ہے جس کا صلہ دیا جارہا ہے۔ لیکن پیچھے چونکہ بشریٰ بی بی تھیں اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی گنڈاپور کو اسے اپنا مشیر رکھنا پڑا۔

پارٹی امور میں بیجا مداخلت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکائتیں بڑھنے لگیں تو گنڈاپور کے نے عمران خان سے شکایت کی۔ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر مشعال یوسف زئی کو کور کمیٹی سے فارغ کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بشریٰ بی نے مشعال یوسف زئی کی رکنیت بحال کرادی۔ اسے مشیر کے عہدے سے بھی ہٹادیا گیا تھا۔ لیکن سابق خاتون اول کی پشت پناہی سے واپسی ہوگئی۔ اس سے مشعال یوسف زئی کے طاقتور ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

نظریاتی عہدے دار کے بقول جس طرح پنجاب میں بزدار کی وزارت اعلیٰ کے دور میں فرح گوگی کے ساتھ مل کر کروڑوں کے عوض ٹرانسفر پوسٹنگ کا گورکھ دھندہ شروع کیا گیا تھا۔ یہ بعید از قیاس نہیں کہ اب یہ سلسلہ خیبر پختونخوا میں بھی شروع ہو جائے اور فرح گوگی کی جگہ مشعال یوسف زئی لے لے۔

اب اس طرف آتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور نے بشریٰ بی بی کو رہائی دلانے میں کیا کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں کیا ڈیل ہوئی؟ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ علی امین گنڈا پور کے خاص خیر خواہوں نے ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ عمران خان کو جیل میں بیٹھ کر انتشار پھیلانے سے روکیں۔ اور ممکن بنایا جائے کہ احتجاج یا انتشار سے متعلق بانی پی ٹی آئی کی کسی ہدایات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکے۔ جس پر علی امین گنڈا پور نے ہامی تو بھر لی اور ابتدا میں کچھ کارکردگی بھی دکھائی۔ لیکن آخر کار ہاتھ کھڑے کردیے اور کہا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں، عمران خان الٹا انہیں بے عزت کرتے ہیں۔

ذرائع کے بقول جب گنڈاپور کو اس سلسلے میں عمران خان کی بہنوں کی مدد لینے کا مشورہ دیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اپنی بہنوں کی بھی نہیں سنتے۔ اور یہ کہ اصل کردار کو تو جیل میں ڈالا ہوا ہے جو اس حوالے سے موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ ہیں بشریٰ بی بی۔ ان کی بات عمران خان نہیں ٹال سکتے۔ ذرائع کے بقول گنڈاپور اپنے خیر خواہوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہے اور یوں جیل سے بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن ہو پائی۔ گنڈاپور پور نے یقین دہانی کرائی کہ حالات و واقعات کی نزاکت بیان کرکے وہ بشریٰ بی بی کے ذریعے عمران خان کو ایک خاص حد سے آگے نہ جانے پر آمادہ کرتے رہیں گے۔

اس سوال پر کہ بشریٰ بی بی تو چوبیس نومبر کے ’’کرو یا مرو‘‘ مارچ کی تیاریوں کا اہم کردار بن گئی ہیں۔ کیا وہ ڈیل سے انحراف کرنے جا رہی ہیں؟ اس پر ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی چوبیس نومبر دور ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اگر یہ مارچ ہوتا ہے تو اس کا انجام بھی پچھلے احتجاجوں جیسا ہوگا۔ جس میں کبھی گنڈاپور کارکنوں کو چھوڑ کر غائب ہوگئے تو کبھی دیگر قیادت گھروں میں دبکی رہی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا صاف مطلب ہوگا کہ بشریٰ بی بی ڈیل سے منحرف ہوگئی ہیں اور اس کا نتیجہ ان کی دوبارہ گرفتاری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔