فائل فوٹو
فائل فوٹو

علما نے وی پی این کیخلاف فتوے کی تائید کردی

محمد اطہر فاروقی :
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کو غیر شرعی اور حرام قرار دینے کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے اہل حدیث، بریلوی اور دیوبندی مسلک کے مفتیان کرام سے بات چیت کی تو انہوں نے متذکرہ فیصلہ کی تائید کی۔ تاہم کسی نے کچھ حد تک مشروط جائز قرار دیا۔ حکومت پاکستان نے بیشتر غیر رجسٹرڈ وی پی این کو بند کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے فتویٰ دیتے ہوئے وی پی این کے استعمال کو غیر شرعی اور حرام قرار دیا ہے۔ اس کے بعد وزارت داخلہ کی جانب سے پی ٹی اے کو ایک خط لکھ کر غیر رجسٹرڈ وی پی این بند کرنے کا کہا گیا تھا۔ پی ٹی اے نے وزارت داخلہ کے خط پر عمل درآمد کرتے ہوئے کئی وی پی این بند بھی کردیئے ہیں۔ وی پی این دراصل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ہے، جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کیلئے کام آتے ہیں۔ یعنی وی پی این کو جو لوگ استعمال کرتے ہیں۔ وی پی این ان افراد کی شناخت اور مقام چھپا لیتا ہے۔ یوں صارفین ایسی ویب سائٹس اور مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جن پر ملک میں پابندی عائد ہے۔

’’امت‘‘ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف مسلک سے تعلق رکھنے والے مفتیان کرام سے بات چیت کی تو دیو بندی مسلک سے تعلق رکھنے والے جامعہ عربیہ مدینۃ العلم کے مہتمم و مذہبی اسکالر مولانا مفتی محمد حماداللہ مدنی نے بتایا ’’ہم اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے دیئے گئے فتویٰ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں ایک عظیم پلیٹ فارم ہے، جہاں وی پی این جیسے جدید مسائل زیر بحث ہوتے ہیں۔ کونسل میں شامل علما انتہائی مسند عالم ہیں۔ ان کے بارے میں یہ رائے نہیں رکھی جا سکتی کہ انہوں نے کسی دبائو میں آکر وی پی این کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ ایسی حرام چیزیں جن کی علمائے کرام کی طرف سے نشاندہی کی جائے، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ جبکہ جس چیز سے ریاست منع کر رہی ہے، اس کا استعمال بھی نہ کیا جائے۔

خوامخواہ اس کا استعمال کرکے ہم اپنی دین و دنیا کو خراب نہ کریں۔ کیونکہ وی پی این کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ اسلام اور ملک کے تین بنیادی اصول ہونے چاہئیں۔ جس میں پہلے نمبر پر اللہ پاک کی اطاعت، پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اس کے بعد ریاست و حکومت کی اطاعت ہے۔ تاہم یہاں یہ بات ضروری ہے کہ حکومت و ریاست کا کوئی اتنا بڑا کام نہ ہو جو کہ شریعت کے خلاف ہو۔ ایسے میں اطاعت لازم نہیں اور اس کے خلاف مسلمان بات کر سکتا ہے‘‘۔

بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے تحریک لبیک پاکستان کے مفتی نذیر کمالوی کا کہنا تھا ’’کسی بھی چیز کو حرام و حلال کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ آیا اس کے حرام ہونے کی اور حلال ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ جس طرح شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ جو شخص شراب کے نشے میں ہوتا ہے اس کا دماغ سن ہو جاتا ہے اور کام کرناچھوڑ دیتا ہے۔ پھر اسے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا۔ اس میں حرام کی وجہ سامنے آ گئی ہے۔

اس لئے شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک وی پی این کا معاملہ ہے تو اس میں بھی یہی دیکھا جائے گا کہ آیا یہ کس کام کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس کا استعمال کرکے کوئی فحش فلمیں یا ویڈیوز دیکھتا ہے یا اس سے ملکی سلامتی کے معاملات درپیش ہوتے ہیں تو ایسے میں اسے استعمال کرنا غلط ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے کہ انٹرنیٹ نہ چلنے کی صورت میں، جیسا ہی حال ہی میں ہوا ہے، کوئی وی پی این استعمال کر کے اپنے جائز کام کرتا ہے تو ایسے میں اس کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث سندھ مولانا سید عامر نجیب کا کہنا تھا ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے دیئے جانے والے فتوے کو کافی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ اس فتوے کی اسپرٹ بلکل درست ہے۔ کیونکہ ریاست اپنی سیکورٹی کیلئے کوئی پابندی لگاتی یا اقدامات کرتی ہے تو ایسے میں ریاستی قوانین کی پاسداری کرنا شریعت کا بھی تقاضا ہے۔ ان پابندیوں کو بائی پاس کرکے وی پی این کے ذریعے بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنا شرعی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ وی پی این کے ذریعے ایسی ویب سائٹ تک رسائی بھی ممکن ہو جاتی ہے جو اسلام دشمنی پر مبنی ہوتی ہے یا غیر اخلاقی اور گستاخانہ قسم کے مواد پر مشتمل ہوتی ہیں۔

انہی ویب سائٹس کے ذریعے دہشت گردی کیلئے سہولت کاری بھی کی جاتی ہے اور ملک دشمن عناصر بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ وی پی این سے آپ کی لوکیشن کا علم نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے فتوے کی اسپرٹ بلکل درست ہے۔ جبکہ فتوے کو متنازع بنانے کے مقاصد بھی زیادہ تر سیاسی ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’کسی چیز کی حلت اور حرمت کا انحصار اس کے استعمال پر ہوتا ہے۔ جس طرح ایک موبائل اور انٹر نیٹ ہے۔ اگر اس کا استعمال مثبت اور تعمیری کیا جائے تو درست اور اگر منفی اور تخریبی کیا جائے تو غلط ہوگا۔