امت رپورٹ :
خیبرپختونخوا کے گورنر ہاؤس میں شاہانہ طور مقیم بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کو مقامی باورچیوں کے ہاتھ کے بنے کھانے پسند نہیں آئے تو فرمان جاری ہوا ’’میرا اپنا باورچی (Cook) حاضر کیا جائے‘‘۔ ’’ملکہ عالیہ‘‘ کے منہ سے الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ جھٹ پٹ بندوبست ہوگیا۔ گورنر ہاؤس کے پی میں موجود ’’امت‘‘ کے انتہائی مصدقہ ذرائع نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پہلے سے موجود کک یا باورچیوں کے ہاتھ سے بنی ڈشوں میں مزہ نہیں آرہا تھا۔ گوشت سے بنی ڈشوں سے تو وہ قدرے مطمئن تھیں۔ تاہم دال اور سبزیاں ان کے مطلب کی نہیں پک رہی تھیں۔ چنانچہ انہیں اپنے پرانے باورچی کی یاد آئی۔ جو بنی گالہ اور زمان پارک میں بھی ان کے لیے کھانے تیار کیا کرتا تھا۔
لاہور کے رہائشی اس باورچی کو لانے کے لیے بشریٰ بی بی نے خصوصی طور پر گاڑی بھیجی۔ اب انہیں پسند کے کھانے دستیاب ہیں۔ یہ باورچی جب بنی گالہ میں تھا تو اس کی تنخواہ پی ٹی آئی کے چندے سے نکالی جاتی تھی۔ پھر بشریٰ بی بی زمان پارک منتقل ہوئیں اور باورچی بھی ساتھ آگیا تو بزدار کی پنجاب حکومت کے سرکاری کھاتے سے اس کی سیلری کا بندوست کیا گیا۔ اب خیبر پختونخوا حکومت اس کا خرچہ اٹھائے گی۔
ان مصدقہ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بشریٰ بی بی کی آسائش کے لیے علی امین گنڈاپور نے ایک طرح سے پورا وزیر اعلیٰ ہاؤس ان کے حوالے کردیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گنڈاپور نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں رہائش پذیر اپنے بیوی بچے اور فیملی کے دیگر ارکان کو اسلام آباد منتقل کردیا۔ ان میں وزیر اعلیٰ کی والدہ، اہلیہ، بچے اور بھابھی شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے اپنے اہل خانہ کو وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ای الیون کی رہائش گاہ میں منتقل کیا ہے۔ تاکہ بشریٰ بی بی کو نقل و حرکت میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے لان میں روزانہ واک کرتی ہیں اور ان کے رشتے داروں کا آناجانا بھی لگا رہتا ہے۔ خود علی امین گنڈا پور نے اپنی رہائش کا بندوست فی الوقت وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بالائی منزل پر کر لیا ہے۔
ادھر24 نومبر کا احتجاج کامیاب بنانے کے لیے بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی پوری طرح متحرک ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے پی میں سابق خاتون اول کی زیر صدارت کم و بیش روزانہ اجلاس ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے اجلاس کے بارے میں رپورٹ ہوا تھا کہ بشریٰ بی بی نے پردے کے پیچھے سے خطاب فرمایا۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے بشریٰ بی بی چلمن سے لگی بیٹھی تھیں اور دوسری طرف بیٹھے پی ٹی آئی رہنما اور عہدے داران ان کی ہدایات سن رہے تھے۔ میڈیا میں اب تک ایسے ہی رپورٹ ہو رہا ہے۔ لیکن ذرائع نے بتایا کہ پہلے اجلاس سے لے کر اب بھی جو بھی میٹنگز ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے بشریٰ بی بی گورنر ہاؤس انیکسی میں اپنے خاص کمرے میں بیٹھ کر مائک کے ذریعے خطاب کرتی ہیں اور انہیں سننے والے پارٹی رہنما اور عہدے داران انیکسی سے خاصے فاصلے پر واقع گورنر ہاؤس کے لان میں موجود ہوتے ہیں۔
پہلے اجلاس میں ہری بھری گھاس اور پھولوں والے لان میں تنبو ( ٹینٹ) تان کر کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ جس پر پارٹی رہنما اور عہدیداران براجمان تھے اور بلیو ٹوتھ کے ذریعے لان میں رکھے گئے اسپیکرز سے بشریٰ بی بی کی آواز سن رہے تھے۔ یعنی ان کا خطاب ایک طرح سے ٹیلیفونک تھا، جیسا کہ کسی زمانے میں لندن سے الطاف حسین کیا کرتا تھا۔ پردے کے پیچھے سے خطاب کا کوئی چکر نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پہلے خطاب میں چونکہ لوگ زیادہ تھے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے پارٹی رہنماؤں اور عہدیداران سے الگ الگ خطاب کیا گیا تھا۔
خیبرپختونخوا حکومت کے امور پر بشریٰ بی بی کے بڑھتے کنٹرول کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صوبے کے چیف سیکریٹری کو بھی طلب کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایک روز پنکی پیرنی کے نواسے، نواسیوں کو نانی کی یاد ستارہی تھی تو انہوں نے بیٹیوں اور دامادوں کو بچوں سمیت وزیر اعلیٰ ہاؤس بلالیا۔ جو دو راتیں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گزار کر گئے۔ ذرائع کے بقول چھوٹا بیٹا بھی ماں سے ملنے آیا تھا۔ تاہم ابھی تک بڑا بیٹا نہیں آیا ہے۔