نواز طاہر:
بانی پی ٹی آئی کی کال پر چوبیس نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کو ملتوی کیے جانے کی اطلاعات ہیں اور اس حوالے سے کارکنان گومگو کا شکار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ ملتوی کیے جانے کا اعلان کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے بعض حلقے اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور بھرپور تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں سے اس احتجاج میں شامل ہونے والوں کی تیاریاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ البتہ پشاور سمیت مختلف شہروں سے پی ٹی آئی کارکنان کے اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔
واضح رہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کیلئے انتظامیہ نے اسلام آباد میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جبکہ نقصِ امن کے اندیشہ پر پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں اور رہنمائوں کی نظربندیوں اور حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاعات بھی ہیں۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر نے گرفتاریوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد بتائی ہے اور ساتھ ہی دھمکی دی ہے کہ اگر ان کا راستہ روکا گیا تو جواب دیا جائے گا۔
اسی دوران عدالت کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو ایک اور مقدمہ میں ضمانت مل گئی ہے۔ تاہم رہائی نہ ملنے کی اطلاعات ہیں اور کہا جارہا ہے کہ انہیں ابھی رہا نہیں کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کے معاملات چل رہے ہیں۔ جن کے نتیجے میں سختیاں کم ہو رہی ہیں اور ریلیف مل رہا ہے۔ لیکن رہائی معاملات طے پانے کی صورت میں ہی ملے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنی فیملی سے ملاقات میں کچھ ’گفتگو‘ بھی کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی میڈیا پر ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے پارٹی میں متحرک ہونے پر پارٹی کے کئی قائدین کو تحفظات ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض پی ٹی آئی رہنما بشریٰ بی بی سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔
ان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ان کا لیڈر صرف عمران خان ہے اور ان کا متبادل لانے کی ہر کوشش کی مخالفت کریں گے۔ اگر بشریٰ بی بی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالتی ہیں تو وہ پی ٹی آئی سے کنارہ کر لیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے اہم ذرائع اسے بے بنیاد قراردے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ پارٹی ایک سے زائد پلان کے ساتھ چل رہی ہے۔ جن میں سے ایک پلان علی امین گنڈا پور کا بھی ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہی کی ہدایت پر آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے کل بھی عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اور نئی ہدایات لی ہیں۔ جبکہ وہ اپنے صوبے میں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق آزاد جموں و کشمیر، پنجاب اور سندھ سے پارٹی کارکنان اور رہنما خٰبرپختون میں مہمان ہیں اور وہیں سے علی امین گنڈا پور کے ہمراہ حکمتِ عملی کے ساتھ نکلتے ہیں۔ ان کارکنوں کو باور کرایا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل فائنل مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی کے ساتھ ڈیل کی قابلِ اعتماد اور مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملنے والا ریلیف بھی صورتحال اور تنائو کی شدت کم کرنے کا ایک پہلو ہوسکتا ہے۔ ڈیل پر فوکس کرنے والے ذرائع کا خیال ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کی کال کسی وقت بھی واپس لئے جانے کا امکان ہے اور شاید کل تک یہ اعلان کردیا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق پنجاب میں احتجاج کی تیاریاں نظر نہ آ نے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔
اس کے برعکس حکومتی جماعت کی طرف سے اس مجوزہ احتجاج پر کڑی تنقید کی جارہی ہے اور دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کی صورت میں سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ آزاد ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق اب تک پنجاب کے کسی شہر میں احتجاج کیلئے اسلام آباد روانگی کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں۔ بلکہ مختلف اوقات میں متحرک نظر آنے والے اکثر کارکنان گومگو کا شکار ہیں۔ یہ کارکنان ’غائب‘ ہیں یا اکا دُکا دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ٹراسپورٹ کے انتظامات کی بھی کوئی اطلاعات نہیں مل رہی ہیں۔