نواز طاہر:
پنجاب اسمبلی کی طرف سے حال ہی میں زرعی ٹیکس لگانے کیلئے منظور کیے جانے والے بل پر گورنر نے دستخط نہیں کیے اور یہ بل واپس بھجوائے جانے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ کیونکہ گورنر کی جانب سے اس ٹیکس کی حمایت نہ کیے جانے کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔ یوں اس بل کے حوالے سے حکمران جماعت مسلم لیگ ’ن‘ اور اتحادی پیپلز پارٹی کا سیاسی اختلاف کھل کر سامنے آگیا ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔
بل کی مخالف پیپلز پارٹی کے پنجاب میں پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی نے قومی اسمبلی کے رکن اپنے بھائی سید قاسم علی گیلانی کے ساتھ گورنر ہائوس لاہور میں گورنر سے ملاقات کی۔ جس میں دیگر امور کے ساتھ بالخصوص اس بل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں بھائیوں اور پیپلز پارٹی کے تینوں رہنمائوں نے زرعی ٹیکس کے حوالے سے پارٹی موقف کی تائید کی اور کاشتکاروں پر ٹیکس نہ لگانے پر اتفاق کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر نے اس بل پر ابھی دستخط نہیں کیے۔ جس کی گورنر ہائوس کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے۔ جبکہ اسمبلی ذرائع کے مطابق بھی ابھی گونر کی طرف سے بل پر دستخط کرنے کی کوئی اطلاع نہیں۔
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اور پی پی کے پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی و ایم این اے سید علی قاسم گیلانی کے درمیان ملاقات میں واضح کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ اس نے پنجاب اسمبلی میں کسان پر زرعی انکم ٹیکس بل پیش کرنے کے دوران واک آوٹ بھی کیا۔ گورنر کا کہنا ہے کہ کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ رواں مالی سال میں گندم کی سپورٹ پرائس تین ہزار نو سو روپے فی من کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اسے دو ہزار روپے فی من لینے کیلئے بھی تیار نہیں تھے۔
زرعی ادویات اور بیج انتہائی مہنگے ہیں۔ کسان پہلے ہی مہنگائی سے پریشان ہے ایسے میں پیپلز پارٹی کسی صورت کسانوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گی اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائے گی۔ اس بل اور ٹیکس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی نے کہا کہ حکومت کسانوں کے خلاف ایسے بل لا کر احتجاج اور دھرنوں کو دعوت دے رہی ہے۔ اسمبلی میں اس بل کے خلاف اپنا نکتہ نظر اور احتجاج ریکارڈ کرایا اور عوام کو پیغام دیا ہے کہ وہ اس ٹیکس کے خلاف اور کسانوں کے ساتھ ہیں۔
پیپلز پارٹی ہی کے رکن اسمبلی قاضی احمد سعید کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس بڑے جاگیرداروں نہیں بلکہ ہر کاشتکار پر لگے گا۔ جبکہ کسانوں کی حالت پہلے ہی دگرگوں ہے اور وہ کئی طرح کے ٹیکس دے رہے ہیں۔ عام کسان نہیں جانتا کہ اس سے یہ ٹیکس کس طرح وصول کیا جائے گا۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس کاشتکار کا قاتل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو معلوم نہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ ٹیکس لگایا ہے یا نہیں۔ لیکن وہ اپنے صوبے میں اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں پنجاب کی طرز کا ٹیکس لگتا ابھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ علاوہ ازیں آج جمعہ کو پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کی طرف سے زرعی سپر ٹیکس کے خلاف لائحہ عمل کا اعلان بھی متوقع ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ زرعی سپر ٹیکس حکومت نے عالمی اداروں کے دبائو پر لگانا ہی لگانا ہے۔ اگر گورنر نے بل پر دستخط نہ کیے تو یہ بل ایک بار واپس آجائے گا اور دوبارہ گورنر کو بھجوادیا جائے گا۔ لہذا گورنر دستخط کرے یا نہ کرے۔ یہ منظور ہوجائے گا۔
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ملک احمد خاں بھچر کا کہنا ہے کہ اس سپر ٹیکس پر جب حکومت نے بل منظور کرلیا ہے تو کیا پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں؟ بنیادی طور پر دونوں جماعتیں ایک ہی ہیں۔ لیکن عوام کے سامنے سیاسی موقف الگ الگ ہے۔ جبکہ اسی جماعت کے رکن میاں اعجاز شفیع چودھری کا کہنا ہے کہ زرعی سپر ٹیکس پر دونوں اتحادی جماعتوں میں سیاسی نورا کشتی جاری ہے۔ سب دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی خود سندھ میں یہ ٹیکس لگائے گی۔