عمران خان:
حکومت نے وفاقی سرکاری اداروں کے افسران اور اہلکاروں پر سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے حوالے سے نئی پابندیاں عائد کرکے ان کی مانیٹرنگ شروع کردی ہے۔ سرکاری افسران کو بغیر اجازت غیر ملکی حکام سے متنازع بات چیت اور سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے معاملات پر تبصروں اور تجزیوں کے علاوہ ریاستی نظریات کے خلاف بات کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف کارروائیوں کے لئے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل آفس کی جانب سے بھی مراسلہ جاری کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق افسران کے لئے جاری کردہ نئی گائیڈ لائن میں انہیں پابند کردیا گیا ہے کہ وہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور واٹس ایپ گروپوں سمیت دیگر مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹس پر سیاسی ، ملکی ، معاشی اور مذہبی حوالے سے ذاتی رائے زنی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی سرکاری معلومات نہ تو شیئر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسی متنازع بات کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں دیگر ممالک کے ساتھ ملکی معاملات متاثر ہوسکتے ہوں یا ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے یا پھر عوام الناس میں منفی اور اشتعال انگیز جذبات ابھرسکتے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری افسران کو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے ایسے منفی اور پروپیگنڈا پر مبنی کمنٹس بھی وقتاً فوقتاً ڈیلیٹ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں جو ان کے پوسٹ پر عوام کی جانب سے کئے جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے وفاقی حکومت کے کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے گزشتہ دنوں ایک تفصیلی مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران سوشل میڈیا پر معمول کے مطابق اپنے ذاتی اکاوئنٹس کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے 2020ء اور 2021ء میں جو قواعد و ضوابط جاری کئے گئے تھے، ان کی پاسداری ضروری ہے۔ مراسلے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک بھر میں اور بیرون ملک کئی سرکاری اداروں کے افسران اور حکام ان قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو ملکی موجودہ صورتحال میں انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ مراسلے کے مطابق بہت سے سرکاری افسران اور حکام حالیہ عرصہ میں سیاسی جماعتوں کی پریس کانفرنسز اور بیان بازی کے بعد ان پر سوشل میڈیا پر بننے والے ٹرینڈز میں تبصرے اور تجزیئے دیتے ہوئے پائے گئے ہیں جس کے دوران انہوں نے سرکاری امور کی ادائیگی کے دوران علم میں آنے والی سرکاری معلومات بھی شیئر کی ہیں۔
مراسلے کے مطابق 2020ء اور 2021ء کے سوشل میڈیا کے استعمال کے قواعد کے مطابق کوئی بھی سرکاری افسر بغیر اجازت نہ تو کوئی کالم لکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی چینل پر اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے بھی کوئی رابطہ نہیں رکھ سکتا۔ انہی قوانین کے مطابق سرکاری افسران سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی سرکاری دستاویزات اور معلومات بھی اپ لوڈ نہیں کرسکتے۔ اس ضمن میں سرکاری افسران اور حکام کے لئے 5 تفصیلی رہنما اصول واضح کر دیے گئے ہیں ۔
مراسلے کے مطابق سرکاری اداروں کے افسران اور حکام معمول کے مطابق اپنے ذاتی اکائونٹس پر ذاتی نوعیت کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تاہم وہ افسران جن کے پاس اپنے اداروں کے سوشل میڈیا اکائونٹس کو چلانے کی ذمے داریاں ہیں یا پھر ان کے پاس حکومت کی کارکردگی عوام تک پہنچانے کی ذمے داریاں ہیں۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کی جانچ پڑتال کر تے رہا کریں اور اپنی پوسٹوں پر عوام کی جانب سے آنے والے ایسے منفی اور پروپیگنڈے پر مشتمل تنصروں اور تجزیوں کو ڈیلیٹ کرتے رہا کریں۔ تاکہ اس کے ذریعے اشتعال انگیز مواد وائرل نہ ہوسکے اور سرکاری افسران کے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے ریاستی نظریات اور ملکی مفاد متاثر نہ ہونے پائے۔ اسی طرح سے ذاتی نوعیت کے سوشل میڈیا اکائونٹس چلانے والے سرکاری افسران اور حکام کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کی مستقل تطہیر کرتے رہا کریں۔
مذکورہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے افسران اور حکام کے خلاف اب سخت محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔ یہ کارروائی سرکاری افسران کے لئے پبلک سرونٹس کے نظم و ضبط کے قوانین کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔ اس مراسلے کے اجرا کے چند روز بعد اب ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اسلام آباد کی جانب سے ملک بھر کے ریجنل ڈائریکٹرز کو بھی ایک مراسلہ جاری کردیا گیا ہے جس میں تمام سرکل انچارجز کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ مذکورہ احکامات کی پابندی کو یقینی بنایا جائے۔ اور خلاف ورزی کرنے والے افسران کے حوالے سے سخت کارروائی کے لئے رپورٹنگ کی جائے تاکہ ان پر انکوائریوں کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔
اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مسلسل مانیٹرنگ اور کارروائیوں کو یقینی بنانے کے لئے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹوریٹ کو اہم ٹاسک دے دیا گیا ہے جس کے بعد سائبر کرائم ونگ کے تحت ایک خصوصی ڈیسک قائم کردی گئی ہے۔ تاکہ وفاقی اداروں میں اپنے خلاف ورزی کرنے والے افسران کے خلاف ہونے والی محکمہ جاتی رپورٹوں کے ساتھ ہی سرکاری مدعیت میں علیحدہ سے خلاف ورزی کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت بھی ایسے افسران کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔