نواز طاہر /محمد قاسم :
عوام نے قیدی نمبر 804 کی ’’فائنل کال‘‘ جوتے کی نوک پر رکھ دی۔ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں سے چند ہزار کارکنان تک اکھٹے نہیں کیے جاسکے۔ جب کہ خیبر پختونخواہ میں بھی تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کیلئے کارکنان کی مطلوبہ تعداد کا ہدف بری طرح ناکام ہوا۔
اس ضمن میں سابق خاتون اول بشریٰ کے تمام احکامات رائیگاں گئے۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان میں احتجاج کا نام و نشان تک نہیں دکھائی دیا۔ بالخصوص کراچی میں کاروبار ہائے زندگی بلا تعطل جاری رہے۔ ماضی میں کلفٹن تین تلوار اور فائیو اسٹار چورنگی پر جو مٹھی بھر کارکنان مظاہرہ کرتے نظر آتے تھے، وہ بھی گھروں میں دبکے رہے۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی ضلع وسطی کے ایک سینیئر عہدے دار کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’پارٹی کی عوامی مقبولیت کا پول تو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں عبرت ناک شکست ہی سے کُھل چکا تھا۔ رہی سہی کسر عارف علوی، حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان جیسے موقع پرست رہنمائوں نے پوری کردی۔ کراچی میں کارکنان کو موبلائز کرنے کے بجائے سابق صدر عارف علوی، حلیم عادل شیخ اور دیگر رہنمائوں نے پشاور میں پُھرتیاں دکھانے کا محفوظ راستہ چُنا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف کراچی کے کارکنان بد دل ہوئے۔ بلکہ خیبر پختونخواہ کارکنان بھی کراچی سے بھاگ کر آئے رہنمائوں پر برس پڑے۔‘‘ متذکرہ دل شکستہ عہدے دار کا یہ بھی کہنا تھا ’’سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں تو پی ٹی آئی کا وجود شروع سے صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدود رہا ہے۔ اسی لیے وہاں سےاحتجاج کی امید سرے سے رکھی ہی نہیں گئی تھی۔‘‘
پی ٹی آئی قیادت کو سب سے بڑا دھچکا خیبر پختونخواہ کے عوام نے دیا۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ کے تمام احکامات رائیگاں گئے۔ ایم این ایز 10ہزار اور ایم پی ایز5 ہزار ورکرز لانے میں ناکام رہے۔ پشاورسمیت صوبے بھر سے پی ٹی آئی مطلوبہ ہدف پورا نہ کر سکی اور صرف چند ہزار کارکن ٹولیوں کی شکل میں صوابی پہنچے۔ پشاور سے صوابی کا رخ کرنے والے علی امین گنڈا پور کے ہمراہ سابق خاتون اول بشریٰ بھی شامل تھی۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا کہ ہفتہ کی رات تک بشریٰ کا مارچ میں شریک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر کارکنان کی تنقید دیکھتے ہوئے انہیں مجبوراً یہ نمائشی شرکت کرنی پڑی۔ تاہم انہوں نے پہلے شوہر خاور مانیکا سے ہوئی اپنی اولاد کو ممکنہ خطرات سے دور رکھا۔ اور انہیں اپنے حالیہ شوہر کی فائنل کال کا حصہ نہیں بننے دیا۔ ان ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ قوی امکان یہی ہے کہ بشریٰ عرف پنکی پیرنی صرف اٹک کا پُل چُھو کر واپس وزیر اعلیٰ ہائوس پشاور لوٹ آئیں گی۔
اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے خیبر پختونخواہ کے پارٹی رہنما اور عہدے دار، ورکرز کا انتظار کرتے رہے اور حجروں سے اعلانات کیے جاتے رہے۔ تاہم بیشتر والدین نے اپنے بچوں کو خطرے میں پڑنے سے روک دیا۔ صوابی میں بندوں سے زیادہ گاڑیاں نظر آئیں۔ صرف چند ہزار کارکنوں کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی صوابی پہنچے۔ صبح 10 بجے گھروں سے نکلنے اور بڑے قافلے کی شکل میں صوابی پہنچنے اور بعد ازاں اسلام آباد جانے کا پروگرام پی ٹی آئی نے بنایا تھا۔ تاہم اس میں بھی ناکامی ہوئی اور 10بجے تک سڑکوں پر صرف پبلک ٹرانسپورٹ ہی نظر آئی۔
موٹروے کی طرف جانے والے راستوں پر ٹریفک نہیں تھی کیونکہ اسلام آباد راولپنڈی موٹروے بند کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز دوپہر کے بعد پارٹی رہنمائوں اور ارکین اسمبلی و صوبائی وزرا کے ہمراہ ٹولیو ں کی شکل میں اپنے حلقوں سے نکلتے نظر آئے جس میں کارکنوں کی تعداد کم اور گاڑیاں زیادہ تھیں۔ پشاور شہر سمیت مضافاتی علاقوں اور دیہات سے بھی تحریک انصاف بندے نکالنے میں بری طرح ناکام رہی اور ہر مضافاتی علاقے سے صرف چند گاڑیاں ہی صوابی کا رخ کرتی نظر آئیں، جن میں ورکرز کو متحر ک رکھنے کے لئے پارٹی ترانے بجائے جاتے رہے۔
پارٹی رہنما ورکرز کا انتظار کرتے رہے اور بعد ازاں اعلانات کے ذریعے پارٹی کارکنوں کو قافلے میں شامل ہونے کے لئے دعوت دی گئی، جس پر کارکنوں کی بڑی تعداد نے کان نہیں دھرے۔ جب کہ بیشتر والدین نے اپنے بچوں کو اسلام آباد مارچ اور احتجاج سے دور رہنے کی ہدایت کی اور سختی سے حکم دیا کہ وہ کسی بھی احتجاج کا حصہ نہ بنیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی احتجاج کے دوران پارٹی رہنما، ورکرز کو اکیلا چھوڑ گئے تھے اور کئی دنوں تک ورکرز جیلوں میں پڑے رہے اور پولیس کے لاٹھی چارج و آنسو گیس کا سامنا بھی کیا۔
ذرائع کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے متعدد کارکن آدھے راستے سے ہی واپس چلے آئے اور صرف حاضری لگوائی اور تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔ تحریک انصاف مارچ میں کارکنوں سے زیادہ تعداد گاڑیوں کی رہی اور پی ٹی آئی ورکرز نے اپنی گاڑیاں بڑی تعداد میں مارچ میں شامل کر رکھی تھیں جس سے قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ تاہم بعض ایسی گاڑیاں بھی قافلے میں دیکھی گئیں جس میں صرف ڈرائیور اور ایک یا دو افراد ہی سوار تھے۔
ادھر پنجاب میں پی ٹی آئی رہنما، کارکنان کو’’چڑھ جا سُولی‘‘ کا درس دے کر، فرمائشی گرفتاریاں دیتے رہے۔ محفوظ حراست کا راستہ چننے والوں میں ملتان سے زین قریشی اور عامر نمایاں تھے۔ اسی طرح شیخ وقاص اکرم، سلمان اکرم راجا، عمر ایوب، بیرسٹر گوہر اور حماد اظہر سمیت تمام صوبائی قیادت منظر سے غائب رہی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی ماہ سے روپوش حماد اظہر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجاب سے نکلنے والے قافلے کی قیادت کریں گے۔ تاہم ان کی یہ بڑھک، میڈک کی چھینک ثابت ہوئی۔ یہ سناریو دیکھتے ہوئے کارکنان نے بھی خود کو سوشل میڈیا تک محدود رکھنے میں عافیت سمجھی۔ لاہور کا لبرٹی چوک جو پی ٹی آئی کارکنان کے ہلہ گلہ کرنے کے لیے معروف سمجھا جاتا تھا۔ اور جہاں ’’انقلابی کنسرٹ‘‘ کا تسلسل رہتا تھا۔ وہاں بھی فائنل کال کے دن الّو بول رہے تھے۔ لاہور میں جن چند کارکنوں نے اکٹھا ہونے کی کوشش کی بھی تو انہیں پولیس نے با آسانی منتشر کردیا۔ اس دوران کچھ کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ جب کہ موقع پر موجود عہدے دار اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
پی ٹی آئی میڈیا سیل کارکنوں کو گھر سے نکلنے کیلئے اکساتا رہا۔ لیکن بزدل قیادت سے مایوس کارکنان نے کان نہیں دھرے۔ احتجاج کی فائنل کال البتہ شہریوں کے لیے شدید مشکلات اور ذہنی کوفت کا سبب بنی۔ ذرائع آمد و رفت لگ بھگ بند ہونے کی وجہ سے ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کا رش رہا۔ بہت سے لوگ جنازوں اور باراتوں میں شرکت نہ کرسکے۔ واضح رہے کہ ہفتہ کی شام پی ٹی آئی پنجاب قیادت نے کارکنوں کو ٹرین کے ذریعے اسلام آباد اور شاہدرہ پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن بیشتر کارکن رات گئے اسلام آباد جانے والے ریل کار کے ٹکٹ واپس کرکے اپنے موبائل فون کی بیٹریاں نکال کر گھروں کو لوٹ گئے۔
اسی طرح کل شام تک لاہور سے کوئی کارکن راوی پار کرکے شاہدرہ نہیں پہنچ سکا تھا۔ جب کہ جن رہنمائوں نے شاہدرہ میں کارکنوں کو جمع کرنا تھا، وہ پہلے ہی فرمائشی گرفتاریاں دے چکے تھے یا کچھ روپوش تھے۔ اسی طرح بہاولنگر، وہاڑی، اوکاڑہ، پاکپتن، خانیوال، رحیم یار خان، بہاولپور اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کارکنان بھی گھروں سے نہیں نکلے۔ گوجرانوالہ میں کامونکی کے قریبی قصبے تتلے عالی میں پی ٹی آئی رہنما چودھری بلال اعجاز کی قیادت میں ایک قافلے نے قومی شاہراہ پر چڑھنے کی کوشش کی جسے روکنے پر کارکنوں نے پولیس پر ہلہ بول دیا۔ لیکن آگے بڑھنے میں ناکام رہے۔ وہاں سے ایک درجن سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔