امت رپورٹ:
احتجاج کے نام پر فساد کے دوران پی ٹی آئی کے مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد ہوتا رہا۔ گولیاں ماری گئیں اور یرغمال بھی بنایا گیا۔ انتشاری ٹولے کو کھلی چھوٹ ملنے پر خود نون لیگ کا حامی سوشل میڈیا بھی اپنی حکومت پر برس پڑا ہے اور سوال کر رہا ہے کہ فساد کو آخر کب تک برداشت کیا جائے گا؟
ہکلا انٹرچینج اٹک کے مقام پر پی ٹی آئی کے مظاہرین کے تشدد سے شہید ہونے والے باریش کانسٹیبل محمد مبشر بلال کا تعلق مظفر گڑھ پولیس سے تھا۔ مبشر بلال کو شدید زخمی ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد وہ آخر کار زحموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔
مقتول نے پسماندگان میں دوجوان بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ ہکلا انٹرچینج پر ناصرف کانسٹیبل مبشر بلال کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا، بلکہ سات سے زائد پولیس اہلکاروں کو شرپسندوں نے یرغمال بھی بنایا۔ اس کی تصدیق نام نہاد شاعر احمد فرہاد نے اپنی پوسٹ میں بھی کی، جس میں کہا گیا کہ ’’بنوں سے پی ٹی آئی، ایم این اے مولانا نسیم علی شاہ سے فون پر بات ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ہکلا انٹرچینج مکمل طور پر کلیئر ہے اور گنڈا پور کے قافلے کا انتظار ہورہا ہے۔ جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار کی جان گئی جبکہ سات کو مظاہرین نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔‘‘ ادھر وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ستّر کے قریب زخمی ہوئے ، ان میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔ اٹک پل کے نزدیک ڈیوٹی دینے والے کانسٹیبل کی ٹانگ پر گولی ماری گئی۔ اس کانسٹیبل کا تعلق سرگودھا پولیس سے ہے۔ زخمی ہونے کے بعد اسے ٹی ایچ کیو اسپتال حسن ابدال منتقل کیا گیا۔ جبکہ اسلام آباد کے نزدیک کٹی پہاڑی پر کانسٹیبل واحد کی گردن پر گولی لگی۔
آزاد ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پیر کی رات اس رپورٹ کے فائل ہونے تک زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہوچکی تھی۔ پولیس اہلکاروں کی وردیاں اتاری گئیں۔ پولیس وینوں اور سرکاری گاڑیوں کو چھین کر ان پر قبضہ کیا گیا اور پھر پیٹرول بم مارکر انہیں آگ لگادی گئی۔ شر پسند اسلحے ، غلیلوں اور ڈنڈوں سے لیس تھے۔جبکہ ان کو کنٹرول کرنے والی پولیس کو صرف ڈنڈے، آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیاں دی گئی تھیں اور تاکید کی گئی تھی کہ گولی نہیں چلانی۔ یعنی صرف گولیاں کھانی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین کے ہاتھوں پولیس اہلکار کی جان گئی اور درجنوں زخمی ہوئے۔ قریباً ایک ماہ پہلے ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بننے والا اسلام آباد پولیس کا معمر کانسٹیبل عبدالحمید بھی شہید ہوگیا تھا۔ شرپسندوں نے عبدالحمید پر ڈی چوک کے نزدیک حملہ کیا تھا۔ بعد ازاں اسے شدید زخمی حالت میں پمز اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔ عبدالحمید بنیادی طور پر ایبٹ آباد کا رہائشی تھا۔
ادھر آئے روزکے مارچ سے تنگ عوام چیخ اٹھے ہیں کہ احتجاج کے نام پر فساد آخر کب تک برداشت کیا جائے گا؟ خود نون لیگ کے حامی سوشل میڈیا اکائونٹس پر بھی اب اپنی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور سخت تنقید ہورہی ہے کہ ریاست ایک فتنے کو قابو کرنے میں مسلسل ناکام کیوں ہے ؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’’آئے روز کے احتجاج اور وفاقی دارالحکومت سمیت پورے پنجاب کو مفلوج کردینے کے عمل سے تنگ عوام جہاں پی ٹی آئی کو کوس رہے ہیں، وہیں کمزور حکومت کو بھی برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو مسلح فسادیوں کے سامنے قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا؟ ایک اور صارف نے کہا ’’حکومت کی حکمت عملی مسلسل ناکامی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔
چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کو دی جانے والی ہدایت کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسی صورت سرکاری مشینری استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے باوجود وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پہلے کی طرح مارچ کے دوران سرکاری مشینری کا بھرپور استعمال کیا۔ ریسکیو وون ٹو ٹو کی گاڑیاں اور کرینیں بھی ان کے قافلے کے ہمراہ تھیں، سرکاری عملہ بھی ساتھ چل رہا تھا۔ وفاقی حکومت کی ہدایت کو نظر انداز کرنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف کیا کارروائی ہوگی یا مٹی ڈال دی جائے گی۔‘‘
ایک صارف نے لکھا ’’آج تک نو مئی میں ملوث ملزمان کا کچھ نہیں ہوسکا۔ شہید پولیس اہلکار کا خون بھی رائیگاں جائے گا۔‘‘ ایک اور صارف نے کہا ’’ریاست اور شہید کانسٹیبل مبشر بلال پر حملہ کرنے والے ہمارے لوگ نہیں۔ ڈنڈوں اور شیلڈوں سے ان مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ شہید کانسٹیبل کے خون کا حساب چاہئے۔‘‘