وفاق خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگاتا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا، فائل فوٹو
وفاق خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگاتا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا، فائل فوٹو

اے پی سی معاملے پر گنڈاپور اور گورنر میں ٹھن گئی

محمد قاسم :
خیبر پختونخواہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے گورنر فیصل کریم کنڈی کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر وزیر اعلیٰ اور گورنر آمنے سامنے آگئے۔ علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس ہم بلائیں گے یہ گورنر کا کام نہیں۔ جبکہ گورنر خیبرپختونخوا نے کہا ہے کہ صوبے میں امن و امان سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وفاق صوبے میں اگر گورنر راج لگاتا ہے تو انکار نہیں کروں گا۔

صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور خاص کر ضلع کرم میں جھڑپوں میں 100سے زائد افراد کے جاں بحق اور ڈیڑھ سو سے زائد کے زخمی ہونے کے علاوہ معمولات زندگی بری طرح مفلوج ہونے کے بعد گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت کیاگیا جب پارا چنار میں گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں درجنوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس وقت تحریک انصاف اسلام آباد مارچ کی تیاری اور بانی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لئے لائحہ عمل طے کر رہی تھی۔ تاہم اب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کھل کر گورنر کے سامنے آگئے اور کہا ہے کہ گورنر جو کر رہے ہیں یہ ان کا کام نہیں نہیں، بلکہ اے پی سی ہم بلائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں بار بار کنفیوز کررہی ہے اور دہشت گردی کی مد میں ہمیں ایک فیصد فنڈز، جبکہ ضم اضلاع کی مد میں 4 کروڑ روپے نہیں مل رہے۔ اسی وجہ سے ضلع کرم کا مسئلہ اب تک کنفیوژن کا شکار ہے۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ گورنر جو کر رہے ہیں یہ ان کا کام نہیں بلکہ اے پی سی ہم بلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے لئے اگر مجھے کوئی بلاتا ہے تو ضرور جائوں گا۔ لیکن گورنر اپنی حیثیت میں بات کریں۔

دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ وفاق خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگاتا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں شق موجود ہے کہ وفاق صوبے میں گورنر راج لگا سکتا ہے۔ اور اگر اس طرح کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو میں کیوں روکوں؟

گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتی اور گورنر راج پر پیپلزپارٹی جو فیصلہ کرے گی وہی میرا فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اس وقت امن و امان سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہمارا اپنا صوبہ آگ کی لپیٹ میں ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں جاکر آگ لگا رہی ہے، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گورنر نے کہا کہ کوئی لیڈر دھرنا دینے سے آزاد نہیں ہوگا۔ بلکہ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ عدالت ہی کرے گی۔ آج ہمارا صوبہ اگر دہشت گردوں کے حوالے ہے تو یہ صوبائی حکومت کی وجہ سے ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم نے صوبے میں امن و امان کے معاملے پر 5 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے جس میں وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کو بھی شرکت کی دعوت دیں گے اور ہم سمجھتے ہیں کہ امن و امان کے معاملے پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پھر وفاق سے لڑنے کی دھمکیاں دیں۔ یہ رویہ درست نہیں۔ کرم کے شہدا کے لیے تو انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔گورنر نے کہا کہ پی ٹی آئی جب بھی جلسہ جلوس کرتی ہے تو کارکنان ہی پکڑے جاتے ہیں ان کے لیڈر کبھی نہیں پکڑے گئے۔ علی امین گنڈاپور اندر کوئی اور فلم چلاتے ہیں، جبکہ باہر ان کی فلم کوئی اور ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی اور ان کے درمیان بھی اختلاف ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے مزید کہاکہ خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد جانے والیٰ بشری بی بی انہیں انہیں چھوڑ کر خود بھاگ گئیں۔ اتنی بہادر تھیں تو وہاں مقابلہ کرتیں۔ ایک طرف صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ پولیس پر بھی حملوں میں تیزی آئی ہے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ ضلع کرم میں حالیہ واقعات نے صوبے میںامن وامان کی صورتحال مزید بگاڑ دی ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ تکرار میں مصروف ہے۔

ادھر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر صوبے میں امن و امان کے قیام کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلانا واقعی صوبائی حکومت کا کام تھا تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو یہ کانفرنس اسی وقت بلا لینی چاہیے تھی جب کرم میں حالات کشیدہ ہو گئے۔ اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لوگ زندگیوں کو بچانے کے لئے نقل مکانی مجبور ہو گئے۔

اس کانفرنس کو اہمیت اس حوالے سے بھی حاصل ہے کہ صوبہ اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور کانفرنس میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں جس سے عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے اقداما ت اٹھانے کی امید ہے۔ اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں اور کریک ڈائون سمیت آپریشنز کے آپشن بھی موجود ہوں گے۔ اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کا ایک نکتے پر متفق ہونا بھی ضروری ہے تاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جو بھی صوبے میں آگ لگانے کی کوشش کرے اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔