عمران خان :
شوگر ملوں میں ہونے والی اربوں روپے کے ٹیکس گھپلوں کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے نئی پالیسی پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔ ایف بی آر کی مانیٹرنگ ٹیموں کی جانب سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آنے پر ان پر ایف آئی اے کی نگرانی بٹھا دی گئی ہے۔ تاکہ کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی کم پیداوار ظاہر کرنے اور ذخیر ہ اندوزی کرنے والے نیٹ ورک کی وارداتوں پر قابو پایا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے 50 سے زائد افسران اور اہلکاروں کی 31 ٹیموں کو سندھ کی 31 شوگر ملوں میں تعینات کردیا گیا ہے۔ جو کرشنگ کے عمل کی کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ کے ساتھ ہی چینی سے بھری جانے والی بوریوں کی تعداد اور ملوں سے باہر جانے والی بوریوں کی تعداد جانچیں گی۔ ساتھ ہی ملوں میں کرشنگ کیلئے آنے والے گنے کی مقدار اور مالیت کا بھی تخمینہ لگایا جائے گا۔ جبکہ ماضی میں شوگر ملوں کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات میں جن بڑے سٹہ بازوں اور بروکروں کا سراغ لگایا گیا تھا، ان کے حوالے سے پیشگی چھان بین کا آغاز کرتے ہوئے ایف آئی اے نے ملک بھر میں سٹہ بازوں کی سرگرمیوں پر بھی مانیٹرنگ بڑھا دی ہے۔ ملزمالکان، بڑے بروکرز اور بینکوں کے درمیان ہونے والے پیسے کے لین دین کی چھان بین شروع بھی شروع کردی ہے۔
’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق گزشتہ ہفتے وزیراعظم کی ہدایات پر ایف آئی اے نے سندھ کی 31 شوگر ملوں میں کرشنگ سیزن کے دوران ہونے والی پروڈکشن پر 100 فیصد سیلز ٹیکس کی وصولی یقینی بنانے کیلئے کائونٹر چیکنگ کی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ ان ٹیموں میں 50 سے زائد ایف آئی اے افسران اور اہلکار شامل ہیں۔ ایف آئی اے سیلز ٹیکس کے ساتھ دیگر مالی گھپلوں اور کرپشن کے حوالے سے بھی مانیٹرنگ کرے گی۔
کرشنگ سیزن کے دوران بھرپور مانیٹرنگ کیلئے نفری کو پورا کرنے کی خاطر گزشتہ روز 10 سے زائد ایف آئی اے اہلکار کراچی ریجن سے حیدرآباد ٹرانسفر کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ایف آئی اے حیدر آباد، سکھر اور بینظیرآباد کے سرکلز کے ہیڈ کانسٹیبل، اے ایس آئی سے لے کر سب انسپکٹر اور انسپکٹر سطح کے 50 سے زائد اہلکاروں کی ڈیوٹیاں سیلز ٹیکس کی چوری روکنے اور پروڈکشن کی مانیٹرنگ کیلئے سندھ بھر کی 31 شوگر ملوں پر تعینات کی گئی ہیں۔ جبکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سطح کے 5 افسران فوکل پرسن بنائے گئے ہیں۔ جو رپورٹ تیار کرکے ہیڈ کوارٹرز کے ذریعے وزیر اعظم ہائوس ارسال کریں گے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائوتھ آفس کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ سیلز ٹیکس کا دائرہ کار ایف بی آر کے پاس ہوتا ہے۔ جس کی ٹیمیں ماضی میں تعینات رہی ہیں۔ تاہم ایف آئی اے کو کائونٹر چیکنگ کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ تاکہ ایف بی آر اور شوگر ملز مالکان کی ملی بھگت سے ہونے والی کسی قسم کی ٹیکس چوری کو بھی بے نقاب کیا جاسکے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ چونکہ ایف بی آر سے علیحدہ جائے گی۔ اس لئے ایف بی آرکی کارکردگی کو بھی جانچا جاسکے گا۔
ذرائع کے بقول کچھ عرصہ قبل شوگر ملوں کے حوالے سے تحقیقات میں ایف آئی اے نے ملز مالکان کیلئے سٹہ بازی کرکے اربوں روپے کا ناجائز منافع بٹورنے والے 7 ڈیلرز سے تفتیش کرکے 53 سٹہ بازوں کا سراغ لگایا تھا۔ جن کے کوائف اور تحقیقاتی رپورٹیں ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں۔ اس وقت ان کی سرگرمیوں پر پوری نظر رکھی جا رہی ہے۔
ان تحقیقات میں کھاردار کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ میں سرگرم چینی کے بڑے سٹہ باز ڈیلرز کا نیٹ ورک بھی سامنے آیا تھا۔ جو ملوں کے ساتھ براہ راست چینی پر سٹہ کھیلنے والے ڈیلرز کے ساتھ کراچی میں عرصہ دراز سے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کیلئے سرگرم رہے۔ انہی کارروائیوں میں گرفتار ہونے والے 7 سٹہ بازوں نے دوران تفتیش اہم انکشافات کیے تھے۔ جس پر ایف آئی اے کے مختلف سرکلز میں ان بروکرز، سٹہ بازوں اور ان سے منسلک ملز مالکان کیخلاف منی لانڈرنگ کی کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں حکومت کی تبدیلی پر ان تمام کارروائیوں کو روک دیا گیا تھا۔ ان کارروائیوں میں ڈیفنس، کلفٹن اور اولڈ سٹی ایریاز میں چھاپے مار کر ڈیلرز روشن لال، چنی لال، دیال داس، سنتوش کمار اور راج کمار و دیگر کو گرفتار کرکے ان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت دو دو مقدمات درج کیے گئے تھے۔
مقدمہ الزام نمبر 5/2021 سی بی سی کراچی میں نامزد دیال داس نے تفتیش میں انکشاف کیا تھا کہ اس کے ساتھ آئی آئی چند ریگرروڈ پر دفتر رکھنے والا ڈیلر کھیم چند، کلفٹن ٹاور میں دفتر رکھنے والا ڈیلر ضمیر حسین، اولڈ سٹی ایریاز کی مرکزی ہول سیل مارکیٹوں میں بڑے پیمانے پر چینی کی سپلائی دینے والے بڑے ڈیلرز میں شامل سٹی کورٹ کراچی کے قریب پونا والا بلڈنگ میں دفتر رکھنے والے چینی کے تین بڑے ڈیلر جلیل احمد، طلحہ کپور، حفیظ گڈو، نیو چالی کے قریب محمدی بلڈنگ میں دفتر رکھنے والا ڈیلر محمد فاروق، حیدرآباد کے سٹہ ڈیلر دیو داس، مہیش کمار، رضوان، نوابشاہ کا ڈیلر ناصر، ماجد ملک اور ندیم مرزا ملوث رہے ہیں۔ جبکہ دیگر 5 مقدمات میں نامزد 6 سٹہ باز ڈیلروں نے بھی اپنے رابطے میں موجود لین دین کرنے والے 20 سے زائد سٹہ باز ڈیلروں کی معلومات ایف آئی اے ٹیم کو فراہم کی تھیں۔
ذرائع کے بقول اسی اسکینڈل میں ایف آئی اے پنجاب نے شوگر مافیا کے خلاف منی لانڈرنگ کے 10 مقدمات درج کرکے 35 سٹہ باز ڈیلروں کو نامزد کیا تھا۔ ان کے ساتھ واٹس ایپ گروپوں میں جہانگیر ترین کی جے ڈبلیو ڈی گروپ، حمزہ اور سلمان شہباز کی ہنزہ گروپ، بختیار خاندان کا الائنس گروپ، المعیز گروپ سمیت دیگر بڑے شوگر ملز کے چینی کے اسٹاک پر سندھ سے سٹہ کھیلنے والے 23 سٹہ باز ڈیلرز کی معلومات ایف آئی اے سندھ کو فراہم کی گئی۔ جس کیلئے جاری کردہ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارے پاس اس بات کے قوی شواہد ہیں کہ چینی سٹہ مافیا نے چینی کی قیمت میں غیرقانونی طور پر اضافہ کیا‘۔
اسی مراسلے میں ایف آئی اے لاہور نے ایف آئی اے کراچی کو شہر میں 23 چینی کے سٹہ بازوں کی تفصیل بھی دی تھی۔ ان میں دانش، فرقان بابا، کھیم چند دینانی، دیوی داس حیدرآباد، جے کمار، جاوید تھارا، حاجی ضمیر، ہریش کمار، مہیش کمار، ویشال کلارا، روہت چنی لالہ، ستیاپال کلارا، سنتوش کمار، راجہ چنی لال، جوتی پرکاش، پون سبلانی، دیال داس، پریم کمار، دلیپ دیونانی، دیوداس، روی کوریجا، نانک رام دینانی، روشن لال، منگارام عرف جگل کشور کا نام بھی شامل تھے۔ مذکورہ فہرست میں جن 23 افراد کے نام شامل ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان شوگرگروپ، شوگر مرچنٹس اور شوگر ٹریڈرز گروپ سے تھا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos