فائل فوٹو
فائل فوٹو

شہباز کی کرسی خطرے میں؟ محسن نقوی کو وزیراعظم بنانے کی پیش گوئیاں

امت رپورٹ:

یہ تاثر گہرا ہو تا جارہا ہے کہ نون لیگ کی قیادت میں چلنے والی وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے جھوٹے بیانیہ کو کاؤنٹر کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے اور اس کا سبب اس کی عدم دلچسپی ہے – جس کے نتیجے میں سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر گر رہا ہے –

فیصلہ ساز قوتوں سے قربت رکھنے والے بہت سے ذرائع کا شکوہ ہے کہ حکومت ایک طرح سے یہ سگنل دے رہی ہے کہ عمران خان کا جن بوتل سے اسٹیبلشمنٹ نے نکالا تھا اور اب اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ تکنیکی لحاظ سے یہ یوں بھی غلط ہے کہ عمران خان کو دیوتا کا روپ اسٹیبلشمنٹ کے سابق کرتا دھرتاؤں نے دیا تھا۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔

ان ذرائع کے بقول سوشل میڈیا پر اہم اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف پی ٹی آئی کے زہریلے پروپیگنڈے سے لے کر سانحہ نو مئی اور حالیہ چھبیس نومبر کے واقعہ کے حوالے سے پی ٹی آئی نے جو جھوٹا بیانیہ بنایا، اس کا مقابلہ کرنے میں حکومت مسلسل ناکام ہورہی ہے اور اسے کاؤنٹر کرنے میں اس کی کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس حکومتی رویہ کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔

جب اس حوالے سے نون لیگی ذرائع سے بات کی جائے تو وہ اپنا رونا روتے ہیں کہ پچھلی اسٹیبلشمنٹ کے تراشے بہت سے یوٹیوبرز اور نام نہاد اینکرز کو اب بھی حکومت پر گند اچھالنے کی اِجازت ہے۔ تا وقت یہ کہ وہ ریڈ لائن عبور نہ کرجائیں۔ یعنی اپنی توپوں کا رخ فیصلہ سازوں کی طرف نہ کرلیں۔ ففتھ جنریشن کے نام پر جو ہیرے تراشے گئے تھے ان میں سے بہت سے اب بھی مختلف نجی ٹی وی چینلز پر دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی بچت کے اس نسخہ کیمیا کو جان گئے ہیں کہ حکومت کو چاہے کتنا بھی رگیدو لیکن دوسری طرف نہیں جانا ہے۔

قصہ مختصر حکومت اور حکومت کو سہارا دینے والوں کے مابین اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ اسی کو لے کر موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کی افواہیں، تجزیے اور پیشن گوئیاں زور پکڑتی جارہی ہیں۔ اہم حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے فیصل واوڈا بھی حکومت پر کھل کر برس رہے ہیں۔ ان کے بقول نااہل اور نکمی حکومت اپنے اچھے کاموں کی برینڈنگ کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اور یہ کہ پرانے بوسیدہ لیڈروں کی جگہ نئے چہروں کو آگے لانا ہوگا۔ صرف یہی نہیں، گزشتہ نگراں پنجاب حکومت کی کابینہ میں شامل اور سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دن گنے جاچکے۔‘‘

’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’چوبیس نومبر سے چھبیس نومبر تک پی ٹی آئی کی اسلام آباد یلغار کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے اہم رہنما منظر نامے سے غائب رہے، صرف ایک عطا اللہ تارڑ دکھائی دیئے۔ یوں پی ٹی آئی جتھے سے نمٹنے کا سارا بوجھ وزیر داخلہ محسن نقوی پر ڈال دیا گیا۔ اس پر ملک کی فیصلہ کن قوتیں خوش نہیں اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس سارے معاملے میں وفاقی حکومت کو جو رول ادا کرنا چاہیے تھا اس نے وہ ادا نہیں کیا۔ شہباز شریف کو مجبوراً لایا گیا تھا۔ لیکن یہ بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔‘‘ جب کنور دلشاد کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ ڈالر اپنی جگہ پر رکا ہوا ہے۔

اسٹاک ایکسچینج روز نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ شرح سود میں دو بار کمی کی جاچکی۔ مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آ چکی۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے بڑے معاہدے ہونے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت ناکام کیسے ہوگئے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس کا سارا کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے۔ ان کی کاوشوں سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہو پارہا ہے۔

کنور دلشاد کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ فیصلہ ساز قوتوں نے محسن نقوی کی شکل میں شوکت عزیز ثانی تلاش کرلیا ہے۔ شوکت عزیز بھی پہلے سینیٹر تھے، انہیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا کر پرویز مشرف نے وزیر اعظم بنوایا۔ اب اسی طرح محسن نقوی کو بھی کسی ایم این اے کی سیٹ خالی کراکے پہلے رکن قومی اسمبلی اور پھر وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم بننے کی صورت میں وہ اپنی مرضی کی کابینہ لے کر آئیں گے۔ ان میں زیادہ تعداد ٹیکنو کریٹس کی ہوسکتی ہے۔

اگر یہ ممکن نہ ہوا تو پھر بنگلہ دیش ماڈل اپنایا جاسکتا ہے، جہاں ایک عبوری حکومت ملک کو چلا رہی ہے اور اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ الیکشن اسی وقت کرائے جائیں گے، جب ضروری اصلاحات کرلی جائیں گی۔ اگر موجودہ سیٹ اپ محسن نقوی کو وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکاری ہوسکتا ہے تو کسی ایک اتحادی کے ساتھ چھوڑجانے پر بھی حکومت گرجائے گی۔ جس کے بعد آنے والی عبوری حکومت کا دورانیہ طویل ہوسکتا ہے۔
دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت سے بے زار کنور دلشاد اور ان کے ہم خیال دیگر لوگوں کی پیشن گوئی درست نکلتی ہے یا نہیں؟ گرائونڈ پر ایسی ممکنہ صورتحال بظاہر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔