فوجی مقامات پر اسرائیلی حملوں، جنوبی شام میں دراندازی کو نا انصافی سمجھتے ہیں، فائل فوٹو
فوجی مقامات پر اسرائیلی حملوں، جنوبی شام میں دراندازی کو نا انصافی سمجھتے ہیں، فائل فوٹو

شام میں خوفناک جنگ کی پیشگوئی

ندیم بلوچ :
شام میں غزہ سے زیادہ خوفناک جنگ کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ جس سے امریکا اور روس کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرات پیدا ہوجائیں گے۔

ادھر اسرائیل کو گولان ہاتھ سے نکلنے کا خوف ستا رہا ہے۔ جبکہ سنی جنگجو دمشق تک پہنچ گئے ہیں۔ مصر کے معروف دفاعی تجزیہ نگار میجرل جنرل ریٹائر یوسف شرقاوی نے تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی پیش گوئی کردی ہے۔

قاہرہ نیوز کو انٹرویو کے دوران عسکری ماہر کا کہنا تھا کہ شہید حماس رہنما یحییٰ سنوار کے سات اکتوبر 2023ء کے ماسٹر پلان کے تحت نہ چاہتے ہوئے بھی کئی ممالک اس جنگ میں کود چکے ہیں۔ حزب اللہ کو کمزور کرنے کیلیے امریکہ اور اسرائیل نے ترکیہ کے ذریعے جو جوا کھیلا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے مشرق وسطیٰ میں مفادات دائو پر لگ چکے ہیں۔

ترکش حمایت سے شام میں اٹھنے والے ایچ ٹی ایس کے ڈھائی لاکھ جنگجوئوں کا لشکر آنے والے دنوں میں غزہ کی حمایت کرتا دکھائی دے گا اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں ایک خوفناک جنگ چھڑ جائے گی۔ شام اور عراق جلد عالمی قوتوں کے درمیان جنگی اکھاڑا بن جائے گا۔ شام میں لگنے والی آگ غزہ سے زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے۔ شامی باغی امریکی، اسرائیلی اور ترکیہ کی مدد سے حلب، ادلب، حما اور حمص کے بعد اب دمشق سے محض 20 کلو میٹر دور ہیں۔

اگر بشارالاسدکا تختہ الٹا تو ایران کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے ساتھ ساتھ وہ خطے میں اپنا کنٹرول گنوا دے گا۔ ساتھ ہی حزب اللہ کیلئے ہتھیاروں کی سپلائی لائن بھی ختم ہوجائے گی۔ بشارالاسد کو یوکرین جنگ کے باعث نہ تو روس کی براہ راست مدد حاصل ہے اور نہ ہی حزب اللہ مدد کیلئے اپنا لشکر شام بھیجنے کی پوزیشن میں ہے۔ روس بھی شام کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت مسلط کرنے کی پوزیشن گنوا چکا ہے۔

عسکری ماہر شرقاوی کا خیال ہے کہ شام کی بدلتی صورتحال کا اثر اسرائیل، مصر، اردن، ترکی اور عراق پر بھی پڑے گا اور ان ممالک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ شام اور عراق میں امریکہ اور روس براہ راست ایک دوسرے کے فوجی اڈوں پر حملہ آور ہوں گے اور یہی وہ نکتہ ہوگا جو تیسری جنگ عظیم کا سبب بنے گا۔ ترکی نے مشرق وسطیٰ میں روس اور ایران کا کردار کم کرنے کا جو کارڈ کھیلا ہے۔ وہ شام اور عراق کو بڑی خونزیزی کی طرف مائل کردے گا۔

اسرائیل بشارالاسد کی حکومت کمزور کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شامی باغیوں کی جانب سے گولان ہائٹس کے قریبی شہر قنیطرہ پر چڑھائی نے صہیونی فوج کو پریشان کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے شامی حکومت کے مکمل خاتمے کے خوف سے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں اپنی فوج میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔

اسرائیل حیات التحریر الشام کو ایک انتہا پسند سنی گروپ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی سرحدوں کے قریب اس کی موجودگی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا اور وہ شام میں مزید جنگ بھڑکانے کیلیے ترکیہ کے خلاف کردش گروپوں کو سپورٹ فراہم کر سکتا ہے۔ تاکہ شام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکے۔