امت رپورٹ : پہلی قسط
عمران خان نے سول نافرمانی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر کم کرنے کی کال دیں گے۔ یعنی اوورسیز پاکستانیوں کو کہیں گے کہ وہ پیسے بھیجنا کم کردیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت فارغ ہونے اور عمران خان کو جیل میں قید کرنے کے بعد سے ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت اپریل دو ہزار بائیس میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں فارغ ہوئی تھی۔ جبکہ اگست دو ہزار تئیس میں عمران خان کو گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ اس پورے عرصے کے دوران ادائیگیوں کے توازن کے بحران سمیت کمزور معاشی حالات کے نتیجے میں اگرچہ ترسیلات زر میں کچھ اتار چڑھائو ضرور آیا۔ لیکن جلد ہی ریکوری ہوگئی۔ اور اب مالی سال دو ہزار چوبیس، پچیس کے ابتدائی چار ماہ میں سمندر پار پاکستانیوں نے ریکارڈ پیسے بھیجے ہیں
۔ یوں مجموعی طور پر پی ٹی آئی حکومت گرنے اور عمران کے جیل جانے کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں نے ترسیلات زر میں کمی نہیں آنے دی۔ یہ ہوا میں کی جانے والی بات نہیں۔ بلکہ اسٹیٹ بینک پاکستان اور دیگر مالی اداروں کے جاری کردہ اعدادوشمار ہیں ( جس کی تفصیل رپورٹ میں آگے موجود ہے)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ملک میں کس کی حکومت ہے۔ وہ صرف اپنے وطن کا سوچتے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر چلانے کے اخراجات ہر صورت بھیجنے ہیں۔ جس سے ملکی معیشت میں بھی بہتری آتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں۔ عمران خان نے ایسی ہی ایک کوشش دو ہزار چودہ میں بھی کی تھی۔ تب بھی ان کی کال کو اوورسیز پاکستانیوں نے گھاس نہیں ڈالی تھی۔ ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس بار بھی نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔
ترسیلات زر (Remittance) وہ پیسہ ہوتا ہے، جو بیرون ملک مقیم پاکستانی، پاکستان میں موجود اپنی فیملیوں کو اخراجات چلانے کے لئے بھیجتے ہیں۔ تاہم اس رقم سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ غرض یہ کہ ملک کی معیشت کے لئے ترسیلات زر ایک اہم عنصر ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے میں پاکستان اور سری لنکا دو ایسے ممالک ہیں، جن کا ترسیلات زر پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس پس منظر میں واضح ہے کہ عمران خان، اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھیجنے سے روک کر ملک کی بتدریج مستحکم ہوتی معیشت کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن سے وابستہ رہنے والے ایک اہم عہدیدار کے بقول ’’لوگ عمران خان کے لئے اپنے گھر والوں کے اخراجات بند کردیں گے۔ یہ سوچ سوائے بے وقوفی کے کچھ اور نہیں‘‘۔
عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپریل دو ہزار بائیس میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تھا۔ یوں نئے مالی سال کا آغاز محض دو ماہ بعد جون دو ہزار بائیس میں ہونا تھا، جو جون دو ہزار تئیس تک چلتا۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو مئی دو ہزار بائیس کے مقابلے میں جون دو ہزار بائیس میں ترسیلات زر کی آمد میں اٹھارہ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا۔ یعنی پی ٹی آئی حکومت گرنے کے صرف دو ماہ بعد یہ نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح اگست دو ہزار بائیس میں بھی جون کے مقابلے میں مزید سات اعشاریہ نو فیصد کا اضافہ ہوا۔
دو ہزار تئیس کے اولین دو ماہ میں اگرچہ ترسیلات زر میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی۔ تاہم مارچ کے مہینے میں ترسیلات میں نمایاں ترین اضافہ ہوا اور فروری کے مقابلے میں ستائیس اعشاریہ پانچ فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ اس بے انتہا اضافے کی ایک وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ماہ رمضان میں زیادہ تر رقم بھیجنا تھا۔ اس بار بھی رمضان المبارک مارچ کے مہینے میں آرہا ہے۔ لہٰذا ترسیلات زر میں نمایاں اضافے کا امکان ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ عمران خان کی اپیل پر اوورسیز پاکستانیز اپنوں کی خوشیاں ماند کردیں۔
اپریل دو ہزار تئیس میں اگرچہ ترسیلات زر میں معمولی کمی ہوئی۔ کیونکہ شرح مبادلہ مستحکم نہیں تھی اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اتار چڑھائو آرہا تھا۔ لہٰذا زیادہ تر اوورسیز پاکستانیوں نے غیر رسمی چینلز کے ذریعے رقوم بھیجنے کو ترجیح دی۔ تاہم جون کے مہینے میں جب دو ہزار بائیس، تئیس کا مالی سال اختتام پذیر ہو رہا تھا تو ایک بار پھر ریکوری ہوئی اور ترسیلات زر میں چار فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ماہرین کے بقول اس کا ایک سبب روپے کی قیمت کا مستحکم ہونا، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر اور روپے کی قیمت میں زیادہ فرق نہ ہونا اور حکومت کی طرف سے رسمی چینلز یعنی بینکوں کے ذریعے گھریلو ترسیلات کی مارکیٹنگ کے لئے ایک نئی ترغیبی اسکیم شروع کرنا بھی ہے ۔
جون دو ہزار چوبیس میں شروع ہونے والے نئے مالی سال سے اکتوبر تک کی چار ماہ کی ترسیلات پر نظر ڈالی جائے تو اس میں نمایاں اضافہ واضح ہے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال دو ہزار چوبیس، پچیس کے پہلے چار ماہ یعنی جولائی سے اکتوبر تک ترسیلات زر تقریباً پینتیس فیصد اضافے کے ساتھ گیارہ اعشاریہ آٹھ فیصد تقریباً پونے بارہ ارب (11.8) ڈالر رہیں۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال مجموعی طور پر سالانہ ترسیلات زر کم از کم بتیس ارب سے زیادہ ہونے کا امکان ہے، جو ایک ریکارڈ ہوگا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد کا تخمینہ تقریباً ایک سے سوا کروڑ ہے۔ دو ہزار سترہ میں وزارت برائے سمندر پار پاکستانی نے بتایا تھا کہ اٹھاسی لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ جبکہ دو ہزار تئیس میں ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی منسٹری نے جو اعدادوشمار دیئے۔ اس کے مطابق انیس سو نوّے سے اب تک ایک کروڑ اسّی لاکھ پاکستانی بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہیں۔ یورپ میں پاکستانیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی برطانیہ ہے۔ جس میں سولہ لاکھ کے قریب پاکستانی نژاد برطانوی ہیں (واضح رہے کہ اب برطانیہ یورپی یونین سے نکل چکا ہے)۔ ایک محتاط تخمینہ کے مطابق برطانیہ میں پاکستانیوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد یورپ کے دیگر ممالک اور امریکہ اور آسٹریلیا میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں۔
سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے آتی ہیں۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات کا نمبر ہے۔ ان میں زیادہ تعداد روزگار کے سلسلے میں جانے والے پاکستانیوں کی ہے۔ جنہوں نے پاکستان میں اپنے گھر چلانے کے لئے پیسہ ہر صورت بھیجنا ہے۔ ترسیلات زر بھیجنے والوں میں تیسرا نمبر برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کا ہے۔ پھر امریکہ اور دیگر ممالک کا نمبر آتا ہے۔
رواں برس اکتوبر میں آنے والی تازہ ترسیلات زر پر نظر ڈالی جائے تو اسٹیٹ بینک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ہمیشہ کی طرح سب سے زیادہ پیسے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بھیجے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے اکتوبر دو ہزار چوبیس میں سات سو چھیاسٹھ اعشاریہ سات ملین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم پچھلے مہینے ستمبر کے مقابلے میں بارہ فیصد زیادہ ہے۔ اکتوبر میں متحدہ عرب امارات سے پانچ سو باسٹھ اعشاریہ سات ملین ڈالر آئے۔ جو پچھلے مہینے کے مقابلے میں دس فیصد اضافہ ہے۔ جبکہ اکتوبر کے دوران برطانیہ سے ترسیلات زر کی مد میں چار سو انتیس اعشاریہ پانچ ملین ڈالر آئے۔ جو ستمبر کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہیں۔ تاہم سالانہ بنیادوں پر برطانیہ سے آنے والی ترسیلات زر میں مجموعی طور پر تیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں برس اکتوبر میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے دو سو ننانوے اعشاریہ تین ڈالر بھیجے۔ جو گزشتہ ماہ کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہیں۔ (جاری ہے)