ترسیلات زر روکنے کا بیانیہ ملک دشمنی ہے، فائل فوٹو
 ترسیلات زر روکنے کا بیانیہ ملک دشمنی ہے، فائل فوٹو

اوورسیز پاکستانی عمراں خان کے ریاست مخالف بینیے سے بدظن

امت رپورٹ : دوسری اور آخری قسط
اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کے ریاست مخالف بیانیہ سے بدظن ہے۔ اس میں خود پی ٹی آئی اوورسیز کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ چھبیس ہزار ممبرز اور امریکہ میں رجسٹرڈ سولہ ہزار کے قریب ارکان میں سے صرف چند سو احتجاج کے لئے نکلتے ہیں۔ ان میں بھی بڑی تعداد دیہاڑی داروں کی ہوتی ہے۔ جبکہ ان دونوں ممالک میں موجود گالم گلوچ بریگیڈ سے پی ٹی آئی کے آفیشل عہدیداروں نے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔

یہ کہنا ہے پاکستانی نژاد برطانوی قانون دان بیرسٹر امجد ملک کا، جو برطانیہ میں وکلا ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو ہزار سولہ سے دو ہزار اٹھارہ تک چیئرمین اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن رہ چکے ہیں اور آج کل اوورسیز کمیشن پنجاب کے وائس چیئرمین ہیں۔ لہٰذا پاکستانی تارکین وطن کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سوا کروڑ سے زائد سمندر پار پاکستانی اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ پیسے پاکستان بھجواتے رہے ہیں۔

ترسیلات زر میں کمی کرنے سے متعلق عمران خان کا بیانیہ ملک یا ریاست کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ اوورسیز پاکستانی ترسیلات زر کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو بھیجتے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا مزید کہنا تھا ’’اوورسیز پاکستانیوں نے پہلے بھی عمران خان کی اس نوعیت کی کالوں کو گھاس نہیں ڈالی تھی۔ اب بھی نہیں ڈالیں گے۔ پچھلے چند برسوں سے اوورسیز پاکستانی پہلے سے زیادہ پیسہ بھیج رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جب ریٹرن اچھا ہوگا اور اکنامی بہتر ہوگی تو ترسیلات زر میں اضافہ ہی ہوگا۔ عمران خان چاہے بھی تو بیرون ملک مقیم پاکستانی، اپنے وطن کے ساتھ تعلق توڑ نہیں سکتے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عمران خان کی حکومت ہو تو اوورسیز پاکستانیز پیسے بھیجیں۔ حکومت نہ ہو تو پیسے بھیجنا بند کردیں۔ عمران خان وزیراعظم ہو تو وہ پاکستان آئیں اور وہ وزیراعظم نہ ہو تو وہ اپنا ملک چھوڑ جائیں یا آنے سے انکار کردیں۔ تارکین وطن پاکستان سے لازوال محبت کرتے ہیں۔ میں خود بھی پچھلی دو دہائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہوں۔ میرا اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ پھر یہ کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے ساتھ میرا برسوں پرانا ساتھ ہے۔

صرف برطانیہ ہی نہیں، سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک، یورپی ممالک اور امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ میرا انٹرایکشن رہتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مشکل وقت میں اوورسیز پاکستانیوں کا اپنے وطن کے ساتھ رشتہ مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ ان کے لئے کوئی شخصیت یا لیڈر ملک پر ترجیح نہیں رکھتا۔ ورنہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ترسیلات زر میں پچاس فیصد کمی ہوچکی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ بھیجی جانے والی رقوم میں اضافہ ہوا۔ بیرون ممالک میں عمران خان کے ریاست مخالف بیانیہ کو محض مٹھی بھر لوگ ہی سپورٹ کرتے ہیں، جو کلٹ فالوورز کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ باقی اکثریت کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے کیا کال دی ہے‘‘۔

ایک سوال پر بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک سے آتی ہے۔ جہاں سب سے زیادہ اوورسیز پاکستانی ہیں جو روزگار کے سلسلے میں وہاں گئے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت روزگار کے سلسلے میں مقیم ہے اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں۔ لہٰذا انہیں تو ہر صورت پاکستان پیسہ بھیجنا ہے۔ وہ عمران خان کی خاطر اپنی فیملیوں کے ماہانہ اخراجات کو بند نہیں کرسکتے۔ فٹیف کی کڑی نگرانی کے بعد اب ہنڈی کے ذریعے پیسہ بھیجنا ویسے بھی پُرخطر ہوچکا ہے تو وہ ایک بندے کی خواہش کی خاطر رسک کیوں لیں گے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ایسے لوگ جو عمران خان کے کلٹ فالوورز ہیں اور ان میں سے اکثر کے اہل خانہ پاکستان میں نہیں، سب وہیں مقیم ہیں۔

اگر یہ مٹھی بھر عناصر ملک دشمنی کرتے ہوئے پیسے پاکستان نہیں بھی بھیجتے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ بیرسٹر امجد ملک کے بقول بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹیز کی اکثریت عمران خان کو سیریس نہیں لیتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے سیاست میں گالم گلوچ اور انتشار کو پروان چڑھایا۔ عمران خان کی منافرت اور تقسیم کی سیاست نے ایک معاشرتی بحران پیدا کردیا ہے۔ لہٰذا اب نوجوانوں کی اکثریت اس رویہ سے متنفر ہورہی ہے۔

برطانیہ اور امریکہ میں پاکستان مخالف احتجاج کرنے والوں میں تنخواہ دار مظاہرین کی اکثریت ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور دیگر ممالک میں تنخواہ دار سوشل میڈیا ٹیم، پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ ان کی تعداد چند فیصد ہے۔ اس میں بھی اب کمی آرہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے اوورسیز سپورٹرز کو سمجھ آرہی ہے کہ عمران خان سیاست نہیں نفرت پھیلارہے ہیں، جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو خاص کر امریکہ اور برطانیہ میں پی ٹی آئی کی بہت زیادہ سپورٹ تھی۔ اب اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔

خاص کر پی ٹی آئی سے وابستہ سنجیدہ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک تعداد گالم گلوچ اور پاکستان مخالف سرگرمیوں سے خود کو الگ رکھتی ہے۔ مثلاً امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً سولہ لاکھ ہے۔ ان میں سے کتنے مظاہروں میں نظر آتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو ہوں گے یا مختلف شہروں میں سب کو ملا کر تین چار سو ہوجاتے ہوں گے۔ سولہ لاکھ میں سے اگر چند سو، پاکستان مخالف مظاہروں میں شریک ہورہے ہیں تو یہ تعداد کتنے فیصد بنتی ہے؟ اسی طرح برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد تقریباً چھیس ہزار ہے۔ ان میں سے مظاہروں میں چند سو دکھائی دیتے ہیں۔

یعنی رجسٹرڈ ارکان کی اکثریت بھی اس گالم گلوچ اور ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بیرسٹر امجد ملک نے بتایا ’’برطانیہ میں پی ٹی آئی پچھلے چند برسوں سے کمزور ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دو برس سے پی ٹی آئی نے اپنے تنظیمی الیکشن نہیں کرائے۔ کیونکہ اندر بہت خلفشار ہے اور اکثریت سمجھتی ہے کہ پارٹی سپورٹرز کو غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ ورنہ ہر سال برطانیہ میں پی ٹی آئی اپنے تنظیمی الیکشن کراتی تھی۔ ہر ممبر سے چھتیس پائونڈ فیس وصول کی جاتی تھی۔ یوں صرف برطانیہ سے پی ٹی آئی کو اس مد میں سالانہ سات لاکھ پائونڈ کی خطیر رقم ملتی ہے، جو پاکستانی چوبیس کروڑ اناسی لاکھ سے زائد روپے بنتے ہیں۔ یہ سارا پیسہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا مشینری پر خرچ کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔