امت رپورٹ:
تحریک انصاف آخرکار اس حکومت سے مذاکرات کے لیے منتیں کررہی ہے جو اس کے بقول فارم 47 کی پیداوار ہے۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق دراصل فیض حمید پر فرد جرم عائد ہونے سے عمران خان سمیت پارٹی کے ان رہنماؤں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے جن کا سانحہ 9 مئی میں کسی بھی قسم کا رول تھا۔ دوسری بڑی غلطی سول نا فرمانی کی دھمکی دے کر کی گئی جو سراسر ملک دشمنی ہے۔ اب پی ٹی آئی سول نا فرمانی کی کال واپس لینے کے لیے فیس سیونگ ڈھونڈ رہی ہے کیونکہ پارٹی قیادت کو ادراک ہے کہ یہ دھمکی قابل عمل نہیں۔
نام نہاد انقلابی عمران خان نے جلدبازی میں کال دے کر پوری پارٹی قیادت کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ بظاہر اس پر بضد ہیں۔ تاہم پاکستان میں موجود تحریک انصاف کی پچانوے فیصد قیادت سول نافرمانی کا بھاری پتھر چومنے سے خوفزدہ ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس دھمکی پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ الٹا ناکامی کا ایک اور سیاہ دھبہ پارٹی پر لگ جائے گا۔ نتائج الگ بھگتنا پڑیں گے۔
صرف باہر بیٹھے انتشار پسند اس انتہا پسندانہ عمل کی حمایت کررہے ہیں جن کا پاکستان میں کوئی اسٹیک نہیں اور وہ پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں موجود قیادت سمجھتی ہے کہ اس کا سارا ملبہ اس پر پڑے گا۔ یوں نتائج بھی اسے ہی بھگتنا پڑیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فیض حمید پر فرد جرم عائد کئے جانے کے عمل نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور عمران خان اور بشریٰ سمیت بے بس کٹھ پتلی پارٹی قیادت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ فیض حمید کے خلاف جو طوفان اٹھا ہے وہ اسے بھی لپیٹ میں لے گا۔ اس طوفان سے بچنے کے لیے فساد کی حکمت عملی اپنائی گئی جو کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
26 نومبر کا احتجاج اور پھر سول نا فرمانی کی کال اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا مقصد حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لاکر اس طوفان کا رخ موڑنا تھا۔ تاہم فائنل کال کے حوالے سے بدترین ناکامی کے سبب جو ہاتھ گریبان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی تھی، اب ان ہی ہاتھوں سے پاؤں پکڑیں جارہے ہیں۔ جس کے تحت حکومت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ ’’ہم فارم 47 والی جعلی حکومت سے نہیں بلکہ صرف طاقت وروں سے بات کریں گے۔‘‘ کا رعونت بھرا لہجہ تبدیل ہوگیا ہے۔
عمران خان کی ہدایت پر ’’ہمیں معاف کر دو‘‘ پر مبنی مذاکرات کی التجا کی جارہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عمران خان جس خطرے سے انتشار کے ذریعے بچنا چاہتے تھے، وہ بالکل سامنے آگیا ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ فیض حمید والے کیس میں عمران خان، بشریٰ اور پارٹی کے چند دیگر رہنماؤں کا بچنا مشکل ہے، اگر بچ نکلے تو یہ انہونی ہوگی۔ لیکن دوسری جانب مذاکرات کے لیے گھگھیاتی پی ٹی آئی کو فی الحال حکومت کی طرف سے پرجوش جواب نہیں دیا جارہا ہے۔
اس صورت حال نے پارٹی رہنماؤں کی انزائٹی بڑھا دی ہے۔ جیل میں بیٹھا بوڑھا انقلابی بھی فکر مند ہے۔ اس نے پارٹی رہنماؤں کو ٹاسک دیا ہے کہ ہرصورت حکومت سے مذاکرات کا آغاز کر کے بچت کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ بانی پی ٹی آئی کے برسوں قریب رہنے والے اور ان کی شخصیت کو کسی ماہر نفسیات کی طرح جاننے والے ایک ذریعے کے بقول، عدالت کی کسی پیشی پر اپنے حامی یوٹیوبررز سے بات چیت میں قیدی نمبر آٹھ سو چار بظاہر پھر’’دھاڑتا‘‘ دکھائی دے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بات سے ہی مکر جائے کہ اس کی ہدایت پر حکومت سے مذاکرات کی کوششں کی گئی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد انقلابی کی اندر سے حالت بہت پتلی ہے اور اس کی ہدایت پر ہی پارٹی رہنما حکومت سے بات چیت شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت پی ٹی آئی سے کھیلنا چاہتی ہے۔ اسے اس قدر گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے کہ گھٹنے چِھل جائیں۔ پھر اگر اشارہ مل گیا تو شاید باقاعدہ مذاکرات شروع بھی کر دے۔ لیکن اس صورت میں بھی نو مئی اور چھبیس مئی کے گناہوں کی سزا سے بچنا مشکل ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ خاص طور پر نو مئی کے حوالے سے عمران خان اور ان کے چند قریبی رہنماؤں کی بچت اس لیے مشکل ہے کہ فیض حمید سے دوران تفتیش حاصل کردہ معلومات میں ٹھوس شواہد مل چکے ہیں کہ اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ عمران خان تھا۔ اس سلسلے میں کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران فیض حمید کی جانب سے تہلکہ خیز انکشافات متوقع ہیں۔
ان ذرائع کے بقول عمران خان سانحہ 9 مئی میں اپنے کردار کے حوالے سے معافی مانگ لیں تو اس سے اتنا ضرور ہوگا کہ ان کی سزا میں کمی ہو جائے، لیکن سزا سے چھٹکارا ملنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ نو مئی کے تمام ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسا ایڈونچر کرنے کی جرات نہ ہو۔