عمران خان:
سندھ کے صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں اسمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کرنے والا نیٹ ورک سرگرم ہے۔ کئی لگژری گاڑیوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لئے جعلی سفارتی استثنیٰ کے لیٹر بھی استعال کئے گئے۔مذکورہ رجسٹریشن کے لئے کسٹمز کے مختلف کلکٹریٹس کے جعلی امپورٹ سرٹیفکیٹ استعمال کئے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔ زیادہ تر ایسی لگژری گاڑیوں کے لئے کسٹمز کوئٹہ کلکٹریٹس کے سرٹیفکیٹ بنوائے گئے ۔
مذکورہ نیٹ ورک میں شامل بعض کرپٹ افسران کی جانب سے ایسی سرکاری آئی ڈیز استعمال کی گئیں جو کہ صوبے کے کسی دوسرے شہر کے دفتر میں تعینات افسر کے زیر استعمال تھیں تاہم ان کو دوسری جگہکھول کر کام کیا گیا۔ایسے کیسوں میں ملوث ایکسائز افسران کے خلاف متعدد انکوائریاں کی گئیں تاہم ان کو وقت کے ساتھ دبا دیا گیا ۔کیونکہ ماتحت افسران کے خلاف ٹھوس کارروائی کی صورت میں ان کے سہولت کار اعلیٰ افسران اور ان کو آشیر باد فراہم کرنے والی سیاسی شخصیات کرپشن کے پورے سسٹم سمیت بے نقاب ہوتی ہیں ۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ایسے ہی ایک کیس کے حوالے سے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹوریٹ آفس میں ای ٹی او کمپیوٹر سیکشن کے تحت ایک انکوائری کا ٓغاز کیا گیا جس میں ایک جعلی آئی ڈی کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کی گئیں ۔ ان تحقیقات کے سلسلے میں مرتب ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاوید علی نامی شخص کے نام پر ایک ٹویوٹا سرف جیپ کی رجسٹریشن کی گئی جس کو جس کو BG-1042کا نمبر الاٹ ہوا تھا ۔اس شخص کا رہائشی ایڈریس سانگھڑ کے علاقے ولیج وسان سے تھا ۔تاہم بعد ازاں اس اسکینڈل میں لاکھوں روپے وصول کرنے والے افسران اور ایجنٹوں کے خلاف شواہد سامنے آنے کے باوجود ان کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی اور معاملے کو دبا دیا گیا ۔
ایک اور کیس میں کراچی میں ایک ایسے ایکسائز افسر کو الاٹ ہونے والی آئی ڈی کھول کر رجسٹریشن کا کام کیا گیا جو کہ اس وقت کراچی میں تعینات ہی نہیں تھا ۔بلکہ اس کی ڈیوٹی اندرون سندھ تھی ۔ذرائع کے بقول اس طرح کی وارداتیں ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران اور کمپیوٹر آئی ٹی سیکشن کے اہلکاروں کی معاونت سے ادا کی جاتی ہیں کیونکہ اگر انکوائری کی جائے تو لاگ بک کے ریکارڈ کے ذریعے فوری طور پر ایسی واردات پکڑی جاسکتی ہیں ۔یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس افسر کی آئی ڈی کس آئی پی ایڈریس پر کس وقت کھولی گئی ہے اور اس سے ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے کون سے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرکے اس میں کیا کچھ کیا گیا ہے ۔
اسی نوعیت کے ایک اور اسکینڈل کی تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران قوانین کے مطابق اس بات کے پابند ہیں کہ کسی بھی غیر ملکی گاڑی کی رجسٹریشن کے وقت اس کے قانونی در آمد ہونے ،ڈیوٹی ٹیکس ادا ہونے کی تصدیق کرنے کے ساتھ ہی سفارتی دستاویزات پر رجسٹریشن کے لئے آنے والی گاڑیوں کے ڈپلومیٹک سرٹیفکیٹ کی بھی تصدیق کریں۔ تاہم کروڑوں روپے کے کمیشن کی وصولی کے لئے ان تمام قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں
۔محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے سسٹم میں کئی طرح کے ریڈ الرٹ ہوتے ہیں۔جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ عرسہ قبل 35کروڑ روپے مالیت کی ایک ایسی ہی بنٹلے کار پاکستان میں اسگل کرکے لائی گئی اور اس کو ایکسائز اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ کروادیا گیا ۔اس کیس میں جب محکمہ کسٹمز کی جانب سے تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ سفارتی دستاویزات پر در آمد شدہ ظاہر کی جانے والی یہ بنٹلے کار کے لئے مقامی نمبر پلیٹ کے اجراء کے لئے خالد بن ولید روڈ پر قائم شوروم مالک کی جانب سے کمرشل چالان بھرا گیا تو محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران کے لئے یہ ایک ریڈ الرٹ تھا ۔ تاہم ان تمام کو نظر انداز کیا گیا ۔
مذکورہ کیس میں چوری شدہ بنٹلے کارکی جعلی دستاویزات پر محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ میں رجسٹریشن میں ملوث افسران کو ایک بڑی سیاسی جماعت کے بااثرشخصیات نے گرفتاری سے بچا لیا گیا۔ اس کیس میں محکمہ کسٹمز کے پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے افسران اور تفتیشی افسر نے بھی محکمہ سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے ملوث افسران کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مذکورہ افسران کو اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ظاہری کاکردگی دکھانے کے لئے معطل کرکے محکمہ جاتی سطح پر فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔تاہم دو ماہ گزرنے کے بعد اب چونکہ معاملہ دب چکا ہے اس لئے مذکورہ افسران جعلی دستاویزات پر لگژری کاروں کی رجسٹریشن مافیا اور ایجنٹوں کے ساتھ دوربارہ سے سرگرم ہوگئے ہیں ۔جنہیں کلین چٹ دے دی گئی ۔اس کے ساتھ ہی نام نہاد فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی کو بھی غیر فعال ہوگئی۔
اس ضمن میں محکمہ سندھ ایکسائز اینڈٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے وزیرمکیش کمار چائولہ کی جانب سے رسمی کارروائی کی زحمت بھی ا نہیں کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق اب تک ایسی سینکڑوں لگژری گاڑیاں محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران نے شوروم مافیا اور ایجنٹ مافیا کی جانب سے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرکے رجسٹرڈ کی گئیں ۔ جبکہ حالیہ اسکینڈل میں ریلیف ملنے کے بعد یہی نیٹ ورک دیدہ دلیری کے ساتھ اب دوبارہ سرگرم ہوگیا ۔
جبکہ دوسری جانب کسٹمز کلکٹریٹ پریونٹو کراچی ہیڈ کوارٹرز کے حکام بھی اس اسکینڈل کی تحقیقات میں اب پہلے جیسی دلچسپی اور تیزی نہیں دکھائی رہے جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔مذکورہ تفتیشی افسر کی جانب سے مقدمہ میں محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسرانکا ریکارڈ ملنے کے بعد انہیں چالان میں نامزد کرکے گرفتاری کرنا چاہئے تھی تاہم ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos