کچھی گلی، سول، جناح اور عباسی شہید اسپتال کے باہر دھڑلے سے جعلی و غیر معیاری ادویات فروخت جاری ہے، فائل فوٹو
 کچھی گلی، سول، جناح اور عباسی شہید اسپتال کے باہر دھڑلے سے جعلی و غیر معیاری ادویات فروخت جاری ہے، فائل فوٹو

کراچی کے میڈیکل اسٹوروں پر جعلی ادویات کی بھرمار

سید نبیل اختر:
کراچی میں بڑے پیمانے پر جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔ یہ ادویات کراچی کے علاوہ ملک بھر کی دواساز کمپنیوں سے صوبہ سندھ میں سپلائی کی جا رہی ہیں۔ مذکورہ ادویات کی سپلائی کا نیٹ ورک کچھی گلی میڈیسن مارکیٹ مارکیٹ سے چلایا جارہا ہے۔ کراچی میں تعینات صوبائی ڈرگ انسپکٹرز معمول کی چیکنگ پر میڈیکل اسٹوروں سے ادویات کے سیمپل اٹھاتے ہیں۔ جنہیں جانچ کیلئے صوبائی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔ جہاں دوا کی جانچ کرکے اس کے جعلی، غیر معیاری، غیر اندراج شدہ اور مس برانڈ ہونے کی تحقیقات مکمل کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاوہ میرپور خاص اور سندھ کے دیگر علاقوں کے میڈیکل اسٹوروں سے صوبائی ڈرگ انسپکٹرز نے جو سیمپل لیبارٹری بھجوائے۔ ان میں سے 56 ادویات جعلی نکلیں۔ اتنی بڑی تعداد میں جعلی ادویات کے پھیلائو نے ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔

ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منسلک ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ کراچی میں جعلی ادویات دھڑلے سے فروخت ہورہی ہے، جس کی روک تھام کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔ دوا کی جانچ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ صوبائی ڈرگ انسپکٹر کسی بھی میڈیکل اسٹور کا رخ کرتا ہے۔ وہاں موجود دوائوں کی خریداری کا ریکارڈ چیک کرتا ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرتا ہے کہ میڈیکل اسٹور پر دستیاب ادویات لائسنس یافتہ دواساز کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر سے خرید کر فروخت کیلئے موجود ہے۔

اگر کسی دوا کی انوائس موجود نہ ہو تو بھی میڈیکل اسٹور کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ بغیر انوائس کسی بھی دوا فروش کو دوا بیچنے کی اجازت نہیں۔ ڈرگ انسپکٹر کسی بھی دوا کا سیمپل اٹھاسکتا ہے۔ جس کی جانچ کرانے کیلئے وہ ایک سیمپل ضبط کرتا ہے۔ یہ پہلا ضبط شدہ سیمپل میڈیکل اسٹور مالک کے پاس ہی رکھ دیا جاتا ہے۔ اس بیچ کے دو مزید سیمپل اٹھائے جاتے ہیں جن میں سے ایک صوبائی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھجوایا جاتا ہے کہ اس کی جانچ ہوسکے۔

دوسرا سیمپل صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ کو دوا کے غیر قانونی ہونے پر پیش کیا جاتا ہے۔ جانچ کے دوران غیر معیاری، جعلی، غیر رجسٹرڈ اور مس برانڈ ہونے پر دوا ساز ادارے اور میڈیکل اسٹور مالک کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔ جس دوا ساز ادارے کی دوا غیر معیاری یا جعلی ثابت ہوتی ہے۔ اسے مذکورہ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ کے خلاف سینٹرل لیبارٹری سے جانچ کرانے کا حق دیا جاتا ہے۔ وہاں سے بھی دوا غیر معیاری یا جعلی ثابت ہوجائے تو کمپنی کے خلاف مقدمہ کا اندراج یا کیس ڈرگ کورٹ بھیج دیا جاتا ہے تاکہ کمپنی کے خلاف کارروائی ہوسکے۔

کراچی سے اس مرتبہ صوبائی ڈرگ انسپکٹرز نے بڑے پیمانے پر سیمپل اٹھاکر جانچ کیلئے بھیجے ہیں۔ جن میں 50 سے زائد پروڈکشن کے جعلی اور بعض کے غیر معیاری ہونے کا پتا چلا۔ یہ ادویات کراچی، لاہور، صوابی، رحیم یار خان، حطار انڈسٹریل ایریا، اسلام آباد اور پشاور کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تیار کردہ ہیں۔

صوبائی ڈرگز انسپکٹر کی جانب سے 7 اگست 2024ء کو سیروسیف کف سیرپ جانچ کیلئے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھجوایا گیا۔ ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے میسرز جے آر لیبارٹریز سائٹ کے اس پروڈکٹ کو جانچ کے بعد جعلی قرار دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوا میں کیمیکل پایا گیا۔ ڈائریکٹر نے رپورٹ میں واضح کیا کہ یہ دوا اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے گیارہ کے پلاٹ پر واقع غیر لائسنس شدہ دواساز کمپنی کی تیار کردہ ہے۔

ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں Jectosal 5 انفیوژن بھی جعلی قرار دی گئی۔ جو میسرز اشرف سنز فارماسیوٹیکل کی تیار کردہ تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ انفیوژن میں Doxtrose Anhydrose کی شناخت نہ ہوسکی۔ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں انجکشن پائوڈر وائل گرین کیپ کی بھی جانچ کی گئی۔ جس میں Ceftrioxone کی شناخت ہوئی۔ تاہم دوا جعلی اور غیر اندراج شدہ قرار دی گئی۔ یہ دوا Effix فارما کی تیار کردہ ہے۔ جس کے پاس دواسازی کا لائسنس بھی نہیں۔

ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بینڈیج Hospitex cotton stretch کی جانچ کی گئی تو انکشاف ہوا کہ گوجرانوالہ کی دواساز کمپنی جنرل فارما کا پروڈکٹ ہے۔ تاہم کمپنی نے مذکورہ بینڈیج کے بارے میں بتایا کہ یہ ان کی کمپنی کی تیار کردہ نہیں۔ رحیم یار خان کی لاکھانی فارما کا پروڈکٹ Laksol انفیوژن بھی جعلی قرار دیا گیا۔ اس دوا کی جانچ میں سوڈیم کلورائیڈ کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور ہزارہ میں واقع فرنٹیئر ڈیکسٹوز کے پروڈکٹ Sterifluid-NS 500 ملی گرام کو بھی سوڈیم کلورائیڈ کی غیر موجودگی پر جعلی قرار دیا گیا۔ معروف دوا ساز کمپنی IMCO فارماسیوٹیکل کا پروڈکٹ Imcovit Syp بھی جعلی قرار دیا گیا۔ اس دوا میں Riboflavin کی نشاندہی ہوئی تاہم Niaeinamide اور Pyrodoxine موجود نہیں تھا۔

رائیونڈ روڈ لاہور میں واقع اینزون فارما لیب کے پروڈکٹ Ensaline NS کو بھی جعلی قرار دیا گیا۔ اس میں بھی سوڈیم کلورائیڈ موجود نہیں تھا۔ میسرز Palpex فارماسیوٹیکل کا پروڈکٹ Diclopal ER بھی جعلی قرار دیا گیا۔ مذکورہ دوا کی جانچ میں Diclofenec Sodium کی نشاندہی نہ ہوسکی۔

میڈی ایٹ فارماسیوٹیکل کورنگی کا پروڈکٹ Bancel Oral سسپنشن بھی جعلی قرار دیا گیا جس میں کیمیکل Cefixime کی شناخت نہ ہو سکی۔ اسی طرح سائٹ انڈسٹریل ایریا میں واقع میکڈانٹرنیشنل کے پروڈکٹ وکس ویپورب بام میں Eneayptus oil، Trupentine، Menthol، Camphor کی شناخت نہ ہوسکی۔ مذکورہ کمپنیوں نے اس پروڈکٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جعلی ثابت ہونے والا پروڈکٹ ان کی کمپنی کا تیار کردہ نہیں۔

ڈرگ ایڈمنسٹریشن ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کو تسلیم نہ کرنے والی کمپنی کو ڈرگ ایکٹ کے مطابق ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ دوا ان کی کمپنی میں تیار نہیں ہوئی۔ معروف کمپنیوں کے جعلی پروڈکشن پکڑے جانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈرگ مافیا جعلی دوا کی تیاری، سپلائی اور فروخت کا کام دھڑلے سے کر رہی ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔