سید حسن شاہ :
پچھلے پانچ برس میں خلع کے کیسز میں 90 فیصد اضافہ ہوگیا۔ ان پانچ برس میں مجموعی طور پر خلع کے 81 ہزار 645 کیسز عدالتوں میں دائر کیے گئے۔ صرف 2024ء کے دوران کراچی سمیت سندھ بھر کی عدالتوں میں خواتین کی جانب سے خلع کے 20 ہزار 828 کیسز داخل کیے گئے۔ جن میں سے 17 ہزار 469 مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے خلع منظور کرلی گئی۔
میاں بیوی میں علیحدگی کی وجوہات میں پسند کی شادی، غیر ضروری خواہشات، عدم برداشت، سوشل میڈیا پر دوستی، گھریلو جھگڑے، اخراجات نہ دینا اور دیگر مسائل شامل ہیں۔ میاں بیوی میں علیحدگی کے سبب 90 فیصد بچوں کی زندگیاں بھی تباہ ہوئیں۔ بیشتر بچے ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ قانونی ماہرین نے خلع کی سب سے اہم وجہ والدین کی بے جا مداخلت قرار دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کو اپنا گھر اور بچوں کی زندگی بچانے کیلئے معمولی تلخ کلامی اور باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھنا اور تحمل کے ساتھ چیزوں کو لے کر چلنا چاہیے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں خواتین کی جانب سے خلع لینے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء میں فیملی کورٹس میں خلع کے 11 ہزار 605 کیس داخل کیے گئے تھے۔ 2021ء میں 15 ہزار 950، سال 2022ء میں 16 ہزار 217، سال 2023ء میں 17 ہزار سے زائد اور 2024ء میں اب تک 20 ہزار 828 کیسز عدالتوں میں داخل کیے گئے۔
عدالتوں میں آنے والے خلع کے مقدمات سے متعلق وکلا سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے سب سے اہم وجہ والدین کی بے جا مداخلت قرار دی۔ فیملی کیسز کے ماہر عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا ’’میاں بیوی کا رشتہ علیحدگی تک پہنچنے میں لڑکی کی والدہ کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی کا اپنی والدہ سے فون پر رابطہ جاری رہتا ہے اور پل پل کی خبریں بتائی جاتی ہیں۔ اگر سسرال میں بیٹی کو ڈانٹ دیا جائے تو اسے بہت بڑا بنادیا جاتا ہے اور والدہ محبت میں بیٹی کا گھر برباد کردیتی ہے۔
جبکہ جن لڑکیوں کا والدہ سے رابطہ نہیں ہوتا تو یہ کام ان کی بہنیں کرتی ہیں۔ میاں بیوی الگ ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ان کے بچوں کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ بچے اگر والدہ کے پاس ہوں تو والدہ، بچوں کے ذہن میں والد کے حوالے سے منفی سوچ ڈالنے لگتی ہے۔ یہی حال والد کے پاس رہنے والے بچوں کا ہوتا ہے۔ جس سے بچوں کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ وہ ہر وقت پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں اور دماغی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں‘‘۔
عثمان فاروق ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ میاں بیوی کو اپنا گھر اور بچوں کی زندگی بچانے کیلئے چھوٹی موٹی تلخ کلامی اور باتوں کو نظرانداز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور تحمل کے ساتھ چیزوں کو لے کر چلنا چاہیے۔
فیملی کیسز کے ایک اور ماہر امجد حسین قریشی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا ’’عدالتوں میں آنے والے خلع کے کیسز مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ میں نے زیادہ تر یہ دیکھا کہ لوگ حقیقت پسند نہیں۔ بلکہ وہ خیالی دنیا میں زیادہ رہتے ہیں۔ میرے پاس مئی 2024ء میں ایک خاتون خلع کا کیس کرنے کیلئے آئی تھیں۔ خاتون پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں ملازمت کررہی تھیں۔ ان کی ماہانہ سیلری ایک لاکھ روپے تھی۔ ان کے شوہر بھی پڑھے لکھے اور بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی ماہانہ تنخواہ بھی 80 ہزار روپے تھی۔ خاتون چاہتی تھی کہ وہ علیحدہ گھر میں رہے۔ کیونکہ لڑکی کے نام پر الگ ایک گھر بھی تھا۔ مگر شوہر راضی نہیں تھا۔
وہ کہتا تھاکہ وہ گھر تمہارے والدین کے گھر کے قریب ہے۔ اس لئے وہاں نہیں رہیں گے۔ جس پر لڑکی کہتی کہ کہیں اور گھر لے لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ایک چھوٹی بیٹی بھی تھی جبکہ یہ دونوں نوکری پیشہ تھے۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ جب وہ صبح ملازمتوں پر جائیں تو بیٹی کو وہ اپنے والدین کے گھر چھوڑ دے۔ مگر لڑکے نے اس سے انکار کردیا تھا۔ اس چھوٹی سی بات پر ان کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔ اس طرح کے کیسز دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ لوگ جلد بازی میں شادی کروادیتے ہیں ۔ لوگ شکر گزار نہیں ہیں۔ اگر بیٹی اور بہو میں فرق ختم ہوجائے تو خلع اور طلاق کا نام و نشان مٹ جائے۔
میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد بچوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں 90 فیصد بچوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں۔ صرف 10 فیصد ہی ایسے لوگ ہیں جو ہر ماہ بچوں کی الگ ہونے والے والد و والدہ سے ملاقات کرواتے ہیں اور ان کی بچوں کے سامنے کبھی برائی نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے ایک اور واقعے کے حوالے سے بتایا کہ فیملی کورٹ میں ایک دن بچے سے ملاقات کا معاملہ زیر سماعت تھا۔ تو ایک آدمی ج پی ایچ ڈی کی ڈگری ہولڈر اور ڈاکٹر تھا، اس کی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی اور 15 سالہ بیٹے کی کسٹڈی اسی کے پاس تھی۔ مگر اس شخص نے والدہ کے بارے میں بچے کے ذہن میں اتنی نفرت پیدا کردی تھی کہ وہ والدہ کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔
والدہ نے عدالت میں ملاقات کیلئے درخواست دی تو عدالت نے انہیں طلب کرلیا۔ جج صاحبہ نے بچے سے اپنی والدہ سے ملاقات کرنے کو کہا تو اس نے منع کردیا اور کہا کہ میں اس عورت سے نہیں ملنا چاہتا۔ جب جج صاحبہ نے یہ کہا کہ آپ کو عدالت آرڈر کر رہی ہے۔ آپ کو والدہ سے ملاقات کرنی پڑے گی تو جواب میں اس لڑکے نے کہا کہ آپ مجھ پر زبردستی نہ کریں۔ ورنہ میں یہیں پر خودکشی کرلوں گا۔ یہ جملہ سن کر عدالت میں موجود تمام افراد کو دھچکا لگا۔ اس طرح کے ہزاروں کیسز عدالتوں میں موجود ہیں۔
رواں سال کے خلع کے کیسز کی بات کریں تو اعداد و شمار کے مطابق سال 2024ء کے دوران کراچی سمیت صوبہ بھر کے 28 اضلاع کی عدالتوں میں خواتین کی جانب سے خلع، طلاق اور بچہ کی حوالگی کے مجموعی طور پر 20 ہزار 828 کیسز داخل کیے گئے۔ جن میں سے 17 ہزار 469 کیسز کا فیصلے سناتے ہوئے خلع منظور کرلی گئی۔ فیملی عدالتوں میں اب بھی 6 ہزار 115 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع بدین کی فیملی عدالتوں میں داخل ہونے والے353 کیسز میں سے 362 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 75کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع دادو کی فیملی کورٹس میں 540 کیسز میں سے528 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 82 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع گھوٹکی کی فیملی عدالتوں میں 323 کیسز میں سے 348 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 71 کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع حیدرآباد کی فیملی عدالتوں میں ایک ہزار 154 کیسز میں سے ایک ہزار 284 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے اور اب بھی497 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع جیکب آباد کی فیملی کورٹس میں 144 کیسز میں سے97 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 118 کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع جامشورو کی فیملی عدالتوں میں 348 کیسز میں سے 376 کے فیصلے سنائے گئے اور 85 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع قمبر شہداد کوٹ کی فیملی عدالتوں میں 314 کیسز میں سے287 کیسز کے فیصلے ہوئے اور 52 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع کندھ کوٹ کی فیملی عدالتوں میں 97 کیسز میں سے107 کے فیصلے سنائے گئے اور 6 کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع خیرپور کی فیملی عدالتوں میں 729 کیسز میں سے 772 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 150 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع لاڑکانہ کی فیملی عدالتوں میں 943 کیسز میں سے 658 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 132 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
ضلع مٹیاری کی فیملی عدالتوں میں 170 مقدمات میں سے185 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 18 کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع میرپورخاص کی فیملی عدالتوں میں 397 مقدمات میں سے424 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 97 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع نوشہرو فیروز کی فیملی عدالتوں میں داخل ہونے والے503 کیسز میں سے487 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 172 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع سانگھڑ کی فیملی عدالتوں میں 472 مقدمات میں سے479 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 106کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع شہید بے نظیرآباد کی فیملی عدالتوں میں 540 مقدمات میں سے 545 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 143 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع شکارپور کی فیملی عدالتوں میں 198 مقدمات میں سے 192 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 40 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع سجاول کی فیملی عدالتوں میں 97 کیسز میں سے101 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 5 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع سکھر کی فیملی کورٹس میں 470 کیسز میں سے486 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 164 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع ٹنڈوالہیار کی فیملی عدالتوں میں 150 کیسز میں سے153 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے اور 22 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع ٹنڈومحمد خان کی فیملی عدالتوں میں 155 کیسز میں سے158 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 15 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع تھرپارکر کی فیملی کورٹس میں 53 مقدمات میں سے50 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 8 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع ٹھٹھہ کی فیملی عدالتوں میں 291 کیسز میں سے288 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 64 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع عمر کوٹ کی فیملی عدالتوں میں داخل ہونے والے 121 کیسز میں سے181 کیسز کے فیصلے سنائے گئے، جنکہ اب بھی 17 کیسز زیر سماعت ہیں۔
کراچی کی عدالتوں میں خواتین کی جانب سے 2024ء کے دوران مجموعی طور پر 9 ہزار 266 کیسز میں سے 8 ہزار 978 کیسز کے فیصلے سنائے گئے۔ جبکہ 4 ہزار 76 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ضلع شرقی میں سب سے زیادہ کیسز داخل ہوئے۔ جہاں فیملی عدالتوں میں 2 ہزار 738 کیسز میں سے 2 ہزار 669 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور ایک ہزار 178 کیس زیر سماعت ہیں۔ ضلع غربی کی فیملی عدالتوں ایک ہزار979 کیسز میں سے ایک ہزار 845 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے اور اب بھی 919 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع وسطی کی فیملی عدالتوں میں ایک ہزار 863 مقدمات میں سے ایک ہزار 845 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 837 کیسز زیر سماعت ہیں۔
ضلع جنوبی کی فیملی عدالتوں میں ایک ہزار346 کیسز میں سے ایک ہزار300 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 444 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ضلع ملیر کی فیملی کورٹس میں داخل ہونے والے ایک ہزار 340 مقدمات میں سے ایک ہزار 319 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور اب بھی 698 کیسز زیر سماعت ہیں۔