اقبال اعوان :
کراچی سے دوسرے شہروں کو جانے والی مسافر ویگنوں کو محفوظ بنانے میں سرکاری ادارے ناکام ہو گئے۔ سی این جی اور ایل پی جی سلنڈر ہٹانے کے احکامات ہوا میں اڑائے جارہے ہیں۔
دوسری جانب سی این جی کی بندش کے بعد ان سلنڈروں میں ایل پی جی بھرنے کا غیرقانونی کام جاری ہے۔ اس وقت کراچی سے ٹھٹھہ سمیت ساحلی علاقوں، بدین، حیدرآباد تک سیکڑوں مسافر وین چل رہی ہیں۔ تین روز قبل بھینس کالونی میں ویگن میں گیس فلنگ کرانے کے دوران حادثہ میں کئی افراد جھلس کر زخمی ہوئے۔ شہر کی ہائی ویز پر جہاں ایل پی جی فلنگ کی دکانوں پر اسپیشل موٹر لگا کر سی این جی سلنڈروں کو گیس فراہم کرنے کا کام جاری ہے۔ وہیں شہر میں ٹیکسیوں، سوزوکی کیری، ہائی روف، ہائی ایس، ٹویوٹا ہائی ایس میں لگے سی این جی سلنڈر میں ایل پی جی ڈالنے کا بھی غیر قانونی سلسلہ عروج پر ہے۔ پولیس اور دیگر ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک طرف شہرِ کراچی میں ایل پی جی فلنگ کی دکانوں پر ناقص اور غیر معیاری سلنڈرز کی فروخت کا سلسلہ تھم نہیں سکا تو دوسری طرف دکانوں کو عارضی بند کر کے دوبارہ بھتہ فکس کر کے کھول دیا گیا ہے۔ یہ دکانیں رہائشی عمارتوں، اسکولوں اور عوامی مراکز پر قائم ہیں۔ گھروں اور فلیٹوں میں سلنڈر پھٹنے کے واقعات بھی تواتر سے ہو رہے ہیں۔ چند برس قبل کراچی میں اسکول وین میں سلنڈر سے آگ لگنے کے واقعات کے بعد سلنڈر رکھنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس دوران سندھ اور پنجاب میں مسافر ویگنوں میں سلنڈر پھٹنے اور آگ لگنے کے واقعات بڑھ گئے تھے۔ وزارت داخلہ، عدالتی احکامات میں سی این جی اور ایل پی جی سلنڈر فوری طور پر مسافر کوچوں، گاڑیوں، وین، اسکول وین سے ہٹانے کا کہا گیا تھا۔ اس کے بعد شہر میں محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس نے کریک ڈائون کیا اور یہ نمائشی کارروائیاں اس دوران کی جاتی رہیں جب گاڑی والوں میں بھتہ نہ دینے پر خوف و ہراس پھیلا۔
اس وقت ابراہیم حیدری سے کیٹی بندر، سجاول، جاتی، کھارو، چوہڑ جمالی، ٹھٹھہ اور دیگر ساحلی علاقوں میں بڑی تعداد میں مسافر وین آتی جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر سی این جی سلنڈرز لگا کر چلتی ہیں۔ جبکہ قائد آباد اور گلشن حدید موڑ سے ٹھٹھہ، حیدرآباد، بدین اور دیگر شہروں کو مسافر وین چلتی ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر میں سی این جی سلنڈر لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ سرد موسم میں گیس بحران بڑھ گیا ہے۔ جنوری تک سی این جی نہیں ملے گی۔ لہذا سی این جی سلنڈر میں ایل پی جی ڈلواکر وینز چلائی جارہی ہیں۔ اوگرا اور دیگر ادارے بار بار اس کام کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں کہ سی این جی ڈرائی اور ایل پی جی لیکویڈ گیس ہے۔ اس کا سلنڈر میں بھرنا انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن پابندی کے باوجود یہ غیرقانونی کام مسلسل جاری ہے۔
اس وقت ایل پی جی کی فی کلو سرکاری قیمت 255 روپے ہے۔ جبکہ کراچی میں 300 روپے کلو تک مل رہی ہے۔ کیونکہ کمرشل میں استعمال زیادہ ہے۔ سی این جی سلنڈر ہٹا کر ڈیزل، پیٹرول پر کٹ کرنے کے اخراجات بچائے جاتے ہیں۔ شہر میں ایل پی جی فلنگ کی دکانوں پر سی این جی فلنگ کرنے والی کٹ رکھی جاتی ہے کہ موٹر چلا کر بڑے ایل پی جی سلنڈر سے گیس گاڑی کے سلنڈر میں منتقل کی جاتی ہے۔ اب ان دکانوں پر پولیس، ٹریفک پولیس اور سرکاری اداروں کے بعض کرپٹ افسران آکر سب کچھ دیکھتے ہیں اور بھتہ وصول کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ بھینس کالونی میں حادثے کے بعد تحقیقات برائے نام کی گئی۔ کیونکہ مقامی پولیس خود ملوث ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos