عمران خان :
ٹیکس چوری میں سہولت فراہم کرنے والے کنسلٹنٹ اور پرال افسران کے خلاف ایف بی آر نے اہم شواہد حاصل کر لئے۔ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کیلئے غریب شہریوں کے ڈیٹا پر جعلی کمپنیاں بنائے جانے کے 3 بڑے اسکینڈلزکے مقدمات کی تحقیقات میں درجنوں کمپنیاں بلیک لسٹ کردی گئی ہیں۔ جبکہ سینکڑوں ارب کے گھپلوں کی تحقیقات پر اثرانداز ہونے کیلئے مخصوص عناصر سرگرم ہوگئے ہیں۔ صرف گزشتہ 6 ماہ میں اب تک کراچی میں پانچ ٹیکس کنسلٹنٹ گروپوں کو تحقیقات میں شامل کر کے گرفتاری کیلئے کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ کاروباری کمپنیوں کے ٹیکس معاملات کو غیر قانونی طریقے سے سیدھا کرنے میں کنسلٹنٹ معاون بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ بعض کنسلٹنٹ از خود بوگس کمپنیاں قائم کرکے انہیں چلانے اور جعلی سیل پرچیز کے ذریعے بوگس انوائسز بنوانے میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ ایف بی آر تحقیقات میں زیر تفتیش ایک ٹیکس کنسلٹنٹ گلریز خان کو عدالت کی جانب سے گزشتہ دنوں دیئے گئے احکامات میں بغیر بتائے سفر کرنے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی ان لینڈ ریونیو کی ٹیم کی جانب سے ٹاپ اینڈ میٹل انڈسٹریز اور ہاربر میٹل انڈسٹریز کی ڈمی کمپنیوں اور بوگس انوائسز پر اربوں کے ٹیکس فراڈ کی تحقیقات کے سلسلے میں گزشتہ دنوں ڈیفنس کے علاقے بدرکمرشل کی اسٹریٹ نمبر 6 کے پلاٹ نمبر 4C کے آفس نمبر 201 میں کارروائی کرتے ہوئے ملزم گلریز احمد رضا کو حراست میں لیا گیا۔ جس کے بعد اسے کسٹمز ٹیکسیشن اینڈ اینٹی اسمگلنگ کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں بتایا گیا کہ گلریز احمد رضا ٹیکس کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ٹیکس فراڈ کیلئے جعلی اور بوگس گوشوارے ملزم کے آفس کی آئی پی ایڈریس سے ایف بی آر سسٹم میں جمع کروائے گئے۔ ایف بی آر کے مطابق تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سجاد حسین اور ثاقب رضا اس لا فرم کے ملازمین کی حیثیت سے گلریز رضا کی ہدایات پر اس کی ان دونوں کمپنیوں کے اکائونٹس سے بھاری رقوم نکلواتے رہے۔ جس کی تفصیلات دونوں ملزمان کے موبائل فونز اور ای میل سی لی گئیں۔
اس کیس میں ٹیکس فراڈ کی مالیت 10 ارب روپے بتائی گئی اور عدالت سے ملزم گلریز احمد رضا سے تفتیش کیلئے دس روز کا جسمانی ریمانڈ مانگا گیا۔ عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔ تاہم ملزم کو پابند کیا گیا کہ وہ بغیر بتائے شہر سے باہر نہیں جاسکتا۔ جبکہ تفتیشی افسران کیلئے قرار دیا گیا کہ اگر تفتیش میں مزید ٹھوس شواہد سامنے آتے ہیں اور وہ گرفتاری کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اپنے قوانین کے مطابق کارروائی کرسکتے ہیں۔
اس کیس کی خاص بات یہ ہے کہ جس وقت یہ کارروائی ہوئی۔ سندھ بار کونسل کے ہائی کورٹ میں انتخابات جاری تھے اور اطلاع ملتے ہی متعدد وکلا ایف بی آر کے دفتر اور عدالت میں مذکورہ ٹیکس کنسلٹنٹ کو بچانے پہنچ گئے تھے۔
انہی دنوں ایف بی آر ریجنل ٹیکس آفس ون کی تحقیقات میں کراچی سے چلائے جانے والے ایک ہی نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں رجسٹرڈ کی گئی 200 بوگس کمپنیوں کے ذریعے 314 ارب کی جعلی سیلز انوائسز کے فراڈ کا انکشاف بھی سامنے آیا۔
اس ضمن میں درج کیے جانے والے مقدمہ کے مطابق کمپنی ’کے ایچ اینڈ سنز‘ (Sons & KH )کیلئے گزشتہ برس فروری کے مہینے میں سیلز ٹیکس رجسٹریشن حاصل کی گئی اور بعد ازاں اپریل میں کمپنی کی جانب سے جو سیلز ٹیکس ریٹرنز کی انوائسز جمع کروائی گئیں۔ ان میں 1 ہزار 748 ارب روپے کی خریداریاں ظاہر کی گئیں۔ جن پر 314 ارب روپے سیلز ٹیکس بنتا تھا۔ مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے ریٹرنز جمع کروانے کیلئے متعلقہ انوائسیں تین مختلف ٹیکس کنسلٹنٹ کمپنیوں بلال حمید اینڈ کو، بیکن لاء ایسوسی ایٹ اور عبید لاء ایسوسی ایٹ کی جانب سے جمع کروائی گئیں۔
ان کے دفاتر میں تحقیقات میں عبید لاء ایسوسی ایٹ کے عبید خان نے اپنے بیان میں اعتراف کرتے ہوئے ایف بی آر ٹیم کو بتایا کہ کمپنی کے ایچ اینڈ سنز کے ریٹرنز ان کی کمپنی کی جانب سے سروس فراہم کر کے جمع کروائے گئے۔ اس کمپنی کے ریٹرنز ان کے ایک ملازم حماد جاوید نے اس وقت جمع کروائے جب وہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ عبید خان نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ ان کی کمپنی کی جانب سے جو معلومات اور دستاویزات ایف بی آر میں جمع کروائی گئیں۔ وہ انہیں کمپنی کی جانب سے اویس اسماعیل نے فراہم کی تھیں۔
اسی طرح ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کراچی کی ٹیم نے 44 ارب کے ٹیکس فراڈ اسکینڈل کی کارروائی میں پہلی بار ایف بی آر کا کمپیوٹرائز خودکار نظام چلانے کی ذمہ دار کمپنی ’’پرال‘‘ (پاکستان ریونیو آٹو میشن پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے ایک ملازم کو بھی گرفتار کیا۔ جو ٹیکس چوروں کو آٹو میشن سسٹم میں نقب زنی اور ریکارڈ کے رد و بدل کیلئے سہولت کاری فراہم کر رہا تھا۔
ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملوث ملزمان نے ’’زیڈ اے اِمپیکس‘‘ کے نام سے بوگس کمپنی قائم کرنے کے بعد ایف بی آر کا کمپیوٹرائزڈ نظام چلانے کی ذمہ دار کمپنی ’’پرال‘‘ کے ملازم کی ملی بھگت سے 12 ارب روپے کا ٹیکس فراڈ کیا۔ اس کیس پر انکوائری کے بعد سامنے آنے والے ثبوت اور شواہد پر ایف بی آر ڈائریکٹوریٹ ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کراچی کی ٹیم نے اس نیٹ ورک کے تین اہم ملزمان کا سراغ لگاتے ہوئے پنجاب کے شہر فیصل آباد، اسلام آباد اور مری کے قریب تین کارروائیاں کرکے تینوں ملزمان کو گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا۔
ان ملزمان میں بوگس کمپنی زیڈ اے اِمپیکس سے منسلک دو ملزمان حسن کو فیصل آباد، جبکہ فیصل میمن کو مری کے قریب سے حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح ان ملزمان کو ایف بی آر سسٹم میں نقب زنی کیلئے سہولت کاری دینے والے پرال کمپنی کے ملازم خلیل کو اسلام آباد سے حراست میں لے کر کراچی منتقل کیا گیا۔
اسی طرح ٹیکس کنسلٹنٹ کے حوالے سے ایک اور کیس میں ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کراچی کو بڑی کامیابی اس وقت ملی۔ جب 11 ارب روپے کے اسکینڈل کے سرغنہ حسن علی بادامی کی بعد از گرفتاری ضمانت اسپیشل جج کسٹم اینڈ ٹیکسیشن کراچی نے مسترد کردی۔ جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعد ازاں ملزم کو جیل کسٹڈی کردیا گیا۔ ملزم کئی برسوں سے کراچی کی شارع فیصل کے قریب پوش آبادی میں ٹیکس کنسلٹنٹ کا کام کر رہا تھا۔ اس دوران کئی کمپنیوں کیلئے بھاری کمیشن پر جعلی دستاویزات پر ٹیکس فراڈ کیے۔ جس میں قومی خزانے کو بھاری ریونیو کا نقصان پہنچا۔