امت رپورٹ :
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جاری پرتشدد کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ جرگے میں فریقین کے مابین امن معاہدہ طے پاچکا ہے۔ تاہم کچھ پوائنٹس ایسے ہیں جس کے سبب اس معاہدے پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مثلاً بعض جرگہ ارکان سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فریقین بھاری ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرانے پر آمادہ ہوگئے ہیں اور حکومت اس حوالے سے طریقہ کار پندرہ دن میں جاری کرے گی۔ لیکن اس کے برعکس معاہدے میں ایسی کوئی بات وضاحت کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ایک فریق کے تمام ارکان کے دستخط معاہدے پر نہیں ہیں۔ دوسری جانب بگن کے متاثرین تاحال سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے نقصان کے ازالے کے حوالے سے بھی معاہدہ خاموش ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے معاہدے پر فریقین کے دستخطوں سے چند روز پہلے کہا تھا کہ ’’علاقے سے اسلحہ اور بنکرز ختم کیے بغیر پارہ چنار ٹل روڈ کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا‘‘۔ یعنی ہر قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی کو ضلع میں پائیدار امن کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر معاہدے میں اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ صوبائی حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ فریقین کو ہر قسم کے بھاری ہتھیار جمع کرانے ہوں گے اور یہ حتمی فیصلہ ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معاہدے کی کاپی کے مطابق اسلحہ اور ہتھیاروں کے معاملے کا ذکر معاہدے کی شق نمبر پانچ میں ہے۔ جس میں کہا گیا ہے ’’ماضی اور حالیہ فسادات میں چھوٹے اسلحے اور بھاری ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ گاؤں اور شہری آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ نیز یہ اسلحہ حالیہ واقعات میں سیکورٹی اور حکومتی اداروں کے خلاف بھی استعمال ہوا۔ لہذا اسلحہ کی آزادانہ نمائش اور استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ اور اسلحہ خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
مزید براں فریقین صوبائی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں بابت اسلحہ دو ہفتوں (پندرہ دنوں) کے اندر قومی مشاورت سے مربوط لائحہ عمل دیں گے۔ بصورت دیگر جس فریق نے مذکورہ پندرہ دن کے اندر مربوط لائحہ عمل نہیں دیا تو اس فریق پر اپیکس کمیٹی کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا‘‘۔ کسی پیچیدہ عدالتی فیصلے کی زبان سے مماثل معاہدے کی اس عبارت میں کہیں وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’مربوط لائحہ عمل کیا ہے؟‘‘ اور پندرہ دنوں میں جو فریق ’’یہ مربوط لائحہ عمل‘‘ نہیں دے سکا تو اس کے خلاف کس نوعیت کی کارروائی ہوگی؟
یہ تو کہا گیا ہے کہ اسلحہ کی آزادانہ نمائش اور استعمال پر پابندی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ نمائش اور استعمال تب ہی ممکن ہے جب کسی کے پاس اسلحہ موجود ہو۔ پورے معاہدے میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ فریقین ایک ماہ یا پندرہ دن کے اندر بھاری ہتھیار حکومت کو جمع کرانے کے پابند ہوں گے۔ جیسا کہ بنکرز سے متعلق، معاہدے میں بغیر کسی ابہام کے آسان الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ’’فریقین کے ہر قسم کے بنکرز کی تعمیر پر پابندی ہوگی اور علاقے میں پہلے سے موجود تمام بنکرز ایک مہینے میں ختم کیے جائیں گے‘‘۔
جرگے کی کارروائی سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ ایک فریق شروع سے ہی ہتھیار حکومت کو جمع کرانے سے انکاری تھا۔ اس وجہ سے ہی مذاکرات میں ڈیڈ لاک آتا رہا۔ اس فریق کا اصرار تھا کہ اگر ہتھیار جمع کرانے کی نوبت آتی ہے تو وہ اپنے عمائدین کے پاس ہتھیار جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم دوسرے فریق کا موقف تھا کہ ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرانے چاہئیں اور وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ اپنے عمائدین کے پاس ہتھیار جمع کرانے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ جب وہ چاہیں گے ہتھیار دوبارہ حاصل کرلیں گے۔ اس سے مستقل امن کیسے آسکتا ہے؟ شاید یہ اختلاف رائے دور نہیں ہو سکا۔
یہی وجہ ہے کہ معاہدے میں اس حوالے سے کچھ موجود نہیں ہے۔ صوبائی حکومت جو اس بارے میں واضح موقف دیتی آرہی تھی کہ فریقین کو ہر صورت ہتھیار جمع کرانے ہوں گے، وہ بظاہر پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اس کا اندازہ معاہدے کی پانچویں شق کے دوسرے حصے سے بخوبی ہوتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے ’’اس اقرار نامے پر دستخط کے بعد فریقین ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔
خلاف ورزی پر حکومت، امن کمیٹی کے تعاون سے اس گاؤں/ علاقے کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔ اور اس گاؤں سے حکومت، سیکیورٹی ادارے اور گرینڈ جرگے کی سفارشات سے اسلحہ ضبط کیا جائے گا۔ جبکہ گرینڈ جرگے کے رواج کے مطابق متعلقہ گاؤں ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کا پاپند ہوگا‘‘۔ یعنی فریقین میں سے کوئی اب ہتھیار استعمال کرے گا تو تب ہی ہتھیار ضبط ہوں گے اور اس کے خلاف مزید کارروائی ہوگی۔ بظاہر ہتھیار فریقین کے پاس ہی رہنے دینے پر اتفاق ہوا ہے۔
دوسری جانب معاہدے پر ایک فریق کے تو تقریباً تمام ارکان کے دستخط موجود ہیں۔ تاہم دوسرے فریق کے بعض ارکان نے تاحال دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ چند ایک ارکان جرگہ میں حاضر نہیں ہو سکے جن کے دستخط ایک دو دن میں لے لیے جائیں گے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن ارکان نے دستخط نہیں کیے، وہ معاہدے کے بعض نکات سے خوش نہیں۔
ادھر بگن میں متاثرین کا احتجاج ساتویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ ان متاثرین کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ اس کے بعد ہی پارہ چنار اور پشاور کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کھولنے کی بات کی جائے۔ واضح رہے کے نومبر میں بس کا نوائے پر کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں لوئر کرم کے علاقے بگن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جہاں پیٹرول چھڑک کر پہلے مرکزی بازار کی تین سو کے قریب دکانوں کو جلایا گیا اور پھر ایک سو سے زائد گھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔
تاہم مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف پُر امید ہیں کہ امن معاہدے پر دستخط کے بعد ہفتے کے روز مرکزی شاہراہ کھول دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بنکرز کی مسماری اور بھاری اسلحے کی حوالگی پر دونوں فریقین متفق ہو گئے ہیں۔ زمینی راستوں پر قافلے بروز ہفتہ روانہ ہوں گے۔ ایک فریق کی جانب سے چند دن پہلے دستخط ہو گئے تھے۔ دوسرے فریق نے بدھ کے روز دستخط کر دیے۔