فائل فوٹو
فائل فوٹو

مصطفیٰ عامر کیس میں پولیس کی ایک اور سنگین غفلت

عمران خان :
مصطفیٰ عامر کے قتل میں ملوث ملزمان ارمغان اور شیراز سمیت ساحر حسن اور شیراز کے پورے نیٹ ورک کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات وقت پر شروع نہ ہونے کی وجہ سے کرائم پروسیڈ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز نہ روکے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ تاحال پولیس کی جانب سے ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے قوانین کے تحت درخواست نہیں بھیجی گئی۔ صرف متعلقہ ایس ایس پی کی جانب سے اپنے ڈی آئی جی کو سفارشات ارسال کی گئی ہیں کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے سے مدد لی جائے جبکہ قانون کے تحت اس کے لئے آئی جی آفس کی توسط سے باقاعدہ کیس بھجوایا جاتا ہے۔

اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات میں ملوث ملزمان ارمغان اور شیراز سمیت ساحر حسن کے حوالے سے منشیات فروشی کے عالمی نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے انکشافات کے بعد مزید کئی حقائق سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے قبل ارمغان کے حوالے سے تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ملوث ملزمان ارمغان اور شیراز کے ایرانی اور افغانی اسمگلروں کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔ ارمغان کے لیپ ٹاپ سے کرپٹو کرنسی کی بھاری ٹرانزیکشنز کے شوہد ملنے کے ساتھ ہی کئی ممالک سے کریڈٹ کارڈز سے بڑی تعداد میں ٹرانزیکشنز بھی ملی ہیں جو ملزمان کی جانب سے کال سینٹرز اور سافٹ ویئر کے دفاتر چلانے کی آڑ میں فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئیں۔

ذرائع کے بقول ملزمان کے حوالے سے یہ شواہد سامنے آئے ہوئے دو ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ تاہم اب تک پولیس کی جانب سے اس نیٹ ورک کے خلاف منی لانڈرنگ کی انکوائری شروع کروانے کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے بقول یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف کئی اہم ثبوت ضائع ہوچکے ہیں۔ بلکہ ملزمان اور ان کے رابطوں میں موجود دیگر منشیات فروشوں، اسمگلروں اور غیر ملکی کرنسی کا کام کرنے والے ایجنٹوں کے ساتھ ہی کریڈٹ کارڈز کے فراڈز اور کرپٹو کرنسی کی ادائیگیوں سے جڑے مرچنٹس کی جانب سے کرائم پروسیڈ یعنی جرائم سے کمائی گئی کروڑوں روپے کی رقوم کو بینک کھاتوں سے نکالنے کا بھی موقع مل گیا ہے۔

ذرائع کے بقول سندھ پولیس کی جانب سے گزشتہ برس اغوا برائے تاوان، قتل اور فراڈ کے 22 مقدمات میں منی لانڈرنگ سامنے آنے کے بعد ان پر اینٹی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے انکوائریاں شروع کروانے کے لئے باقاعدہ ایف آئی اے کو تحریری کیس بھیجے گئے تھے۔ جن پر ایف آئی اے کراچی کی ٹیموں نے منی لانڈرنگ کے متعدد مقدمات قائم کئے اور ان انکوائریوں میں ملزمان کی جانب سے جرائم سے بنائے گئے کروڑوں روپے کے اثاثوں کو منجمد بھی کیا گیا۔ ذرائع کے بقول اس وقت ملک میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ایف آئی اے، کسٹمز، اے این ایف اور سی ٹی ڈی کو انکوائری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم سی ٹی ڈی صرف ان کیسوں پر اس ایکت کے تحت کارروائی کرسکتی ہے جس میں دہشت گردی کو فنڈنگ کے شواہد ملیں، اس کو کاﺅنٹر ٹیررازم فنڈنگ یعنی سی ٹی ایف کہا جاتا ہے۔ جبکہ نیب اور کسٹمز اپنے دائرہ کار کے مطابق منی لانڈرنگ کی کارروائی کرسکتے ہیں۔ مصطفیٰ عامر جیسے کیس میں سامنے آنے والی منی لانڈرنگ خالص طور پر ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس ایکٹ کے تحت تفتیشی افسران فوری طور پر انکوائری درج کرکے ملوث ملزمان کی جائیدادوں، گاڑیوں اور بینک کھاتوں کا ریکارڈ اسٹیٹ بینک، ایکسائز اور پراپرٹی سے منسلک اداروں سے حاصل کرکے عدالت کے ذریعے 90 روز کے لئے ان کھاتوں سے رقوم کی منتقلی اور جائیدادوں کی خرید وفروخت کو منجمد کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوری طور پر ثبوت ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ ریکوری کی جاسکتی ہے۔

ذرائع کے بقول ابھی تک سندھ پولیس کی جانب سے صرف یہ کام کیا گیا ہے کہ ان کے ایک متعلقہ ایس ایس کی جانب سے اپنے ڈی آئی جی کو ایک مراسلہ بھیجا گیا ہے، جس میں منی لانڈرنگ کی کارروائی میں ایف آئی اے کراچی سے مدد لینے کی سفارش کی گئی ہے۔ حالانکہ یہ غیر ضروری تاخیر کے زمرے میں آتا ہے ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ کی کارروائی میں ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کے لئے باقاعدہ انکوائری درج کرنی ہوتی ہے جس کا ایک نمبر ہوتا ہے اور ایک تفتیشی افسر ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی کچی ہوتی ہے اور عدالت میں فوری طور پر اڑ سکتی ہے۔

مذکورہ اسکینڈل میں منشیات، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کے ساتھ ہی ملزمان کی جانب سے گزشتہ 6 برس سے سافٹ ویئر ہاﺅس کی آڑ میں کال سینٹرز کے ساتھ ڈارک ویب چلانے کا کام کرتے رہے۔ اس دوران اس کے حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کی ٹیم کو کئی بار خفیہ اطلاعات ملیں۔ کیونکہ اس عرصہ میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے کراچی کا شاید ہی کوئی کال سینٹر چھوڑا ہوگا، جہاں انہوں نے چھاپہ نہیں مارا۔ ان میں سے زیادہ تر کارروائیوں میں کروڑوں روپے وصول کرکے ملزمان کو بغیر مقدمات درج کئے چھوڑا گیا۔ تاہم ان ملزمان کے سیٹ اپ پر اس لئے ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا کیونکہ ملزم ارمغان کے ایک قریبی عزیز خود سندھ پولیس کے سی آئی اے برانچ میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہی ملزم کی گرفتاری میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہاں پر بھی ملزم کو انتہائی خاموشی سے یہ ریلیف دے دیا گیا کہ ان کے نشے کے حوالے سے میڈیکل ٹیسٹ نہیں کروائے گئے۔ کیونکہ اگر یہ ٹیسٹ کروالئے جاتے تو کیس میں مزید دفعات شامل ہوتیں اور کیس مزید مضبوط ہوجاتا۔ ملزمان کے ڈارک ویب چلانے اور سی آئی اے والے عزیز کے الزامات کے حوالے سے ایک حساس ادارہ بھی تحقیقات کر رہا ہے جن کے اختتام پر اصل حقائق سامنے آجائیں گے۔

ذرائع کے بقول کرائم پروسیڈ ان اثاثوں کو کہتے ہیںجو منی لانڈرنگ سمیت مختلف جرائم سے بنائے جاتے ہیں۔ اس میں بینک کھاتوں میں موجود رقم، جائیدادیں، غیر ملکی کرنسی، زیورات اور گاڑیاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ کرائم پروسیڈ منشیات فروشی، آن لائن فراڈ سے کمائی گئی رقم ہوتی ہے۔ جبکہ اس ضمن میں پولیس کی جانب سے مسلسل تاخیر ایک سوالیہ نشان ہے۔